کتاب: محدث شمارہ 356 - صفحہ 60
(( لکل نبي دعوة مستجابة، فتعجل کل نبي دعوته وإني اختبأت دعوتي شفاعة لأمتي یوم القیمة نائلة إن شاء الله من مات من أمتي لا یشرك بالله شیئًا)) [1] ’’ہر نبی کی ایک دُعا (ضرور) قبول کی جاتی ہے۔ ہر نبی نے اپنی (اس)دُعا میں جلدی کی اور میں نے اپنی دُعا اپنی اُمت کی شفاعت کے لیے قیامت والے دن کے لیے بچا رکھی ہے اور میری دُعا ان شاء اللہ میری اُمّت میں سے ہر اس آدمی کو پہنچے گی جو اس حالت میں فوت ہوا کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتاتھا۔‘‘ ان احادیث سے اُمت میں شرک کے وجود کا واضح ثبوت ملتا ہے۔ وگرنہ ان احادیث میں شرک نہ کرنے کی قید بے معنیٰ ہوگی اورہمارا عقیدہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام بے معنیٰ نہیں بلکہ شرک کے عدم وجود کا نظریہ ہی بے معنیٰ و بے فائدہ ہے۔ اُمتِ محمدیہ میں عدم شرک کے دلائل کا ناقدانہ جائزہ شرک کے وجود پر آپ تین شرعی دلائل ملاحظہ فرما چکے ہیں، اب ذیل میں اُمت مسلمہ میں شرکِ اکبر کے وجود کی نفی پر مضمون نگار کے بیان کردہ دلائل جن سے یہ استدلال کیا جاتا ہے کہ اُمت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم میں شرک کا امکان نہیں ہے، کا تجزیہ پیش خدمت ہے: 1. صاحبِ مضمون کی پہلی دلیل یہ ہے کہ پہلی قوموں کی طرح اس اُمت میں شرک نہیں آیا۔ اس کے لیے اُنہوں نے اس آیت سے استدلال کیا کہ قوم موسیٰ نے نجات پانے کے بعد موسیٰ علیہ السلام سے کہا: ﴿ قَالُوْا يٰمُوْسَى اجْعَلْ لَّنَاۤ اِلٰهًا كَمَا لَهُمْ اٰلِهَةٌ1 قَالَ اِنَّكُمْ قَوْمٌ تَجْهَلُوْنَ﴾ ’’اے موسیٰ علیہ السلام ! ہمارے لیے ایک ایسا الٰہ بنا دے جیسے ان کے اتنے خُدا ہیں۔‘‘ [2] اس آیت پر اُن کی وضاحت کا خلاصہ یہ ہے کہ چونکہ اُمتِ محمدیہ میں قوم موسیٰ علیہ السلام کی مشابہت نہیں ملتی، چنانچہ اُن میں شرک بھی نہیں۔ تبصرہ : یہ دعویٰ درست نہیں کہ اُمتِ محمدیہ میں قوم موسیٰ علیہ السلام سے کوئی مشابہت نہیں پائی جاتی۔ حقیقت یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے درختوں کو متبرک سمجھ کر اسلحہ لٹکانے کو قوم موسیٰ کی
[1] صحیح مسلم :338، شرح السنۃ : 1237، مسندابو عوانۃ: 90 [2] سورۃ الاعراف:138...بحوالہ روزنامہ پاکستان مجریہ7/اپریل، قسط نمبر 1/ص 5