کتاب: محدث شمارہ 356 - صفحہ 6
کے ذریعے اسلامیات کی بے روح لازمی تدریس کے بعدصرف ڈیڑھ دو سال میں اُس کو سندِ فضیلت تھما کر، یونیورسٹی کے سماجی اعتراف کے ذریعے اس ’فاضل‘ کو خدمتِ اسلام پر مامور کردیا جاتا ہے۔ بعض پرائیویٹ یونیورسٹیوں نے تو اس پر حد ہی کردی ہے کہ ان کے ہاں اسلامیات کی پی ایچ ڈی مرحلہ کو عبور کرنے کے لئے ایم اے کے درجے کی کوئی بھی سند کافی خیال کی جاتی ہے۔یعنی جس طالبعلم نے تعلیم کے سولہ برسوں میں ایک بار بھی علوم اسلامیہ کو نہیں پڑھا، اور وہ بالفرض انجنیئرنگ کا طالبعلم ہے ، اگر وہ چاہے تو وہ بھی ایم فل میں محض 9 ماہ کی براہ راست تعلیم کے بعد ، محض ایک مقالہ لکھ لینے سے اسلام کا فاضل اجل بن سکتا ہے۔ اسلامیات کی اس درجہ سرسری تعلیم حاصل کرنے والے اساتذہ ہی بعد میں دیگر نونہالانِ وطن کو علوم اسلامیہ کی تعلیم وتربیت دینے پر مامور کئے جاتے ہیں۔ بعض اوقات ایک فاضل وقابل اُستاد چند ماہ میں ہی طالبِ علم کو شریعت اور اسلام کی گہری تفصیلات سے باخبر کرسکتا ہے، لیکن اگر اساتذہ کرام کی اپنی تعلیم بھی انہی سرسری مراحل سے گزر کر مکمل ہوئی ہو تو پھر وہاں علوم اسلامیہ کا کیا معیار ہوگا...؟ طرفہ تماشا تو یہ ہے کہ بعض نامور پرائیویٹ یونیورسٹیوں میں علوم اسلامیہ میں پی ایچ ڈی کی تعلیم کے لئے ، جن پروفیسرز کی خدمات حاصل کی گئی ہیں، ان میں سے کوئی ایک بھی علوم اسلامیہ میں خود پی ایچ ڈی کی رسمی اہلیت بھی نہیں رکھتا۔ یعنی اس نے زندگی بھر چند سال بھی اسلام کا مطالعہ نہیں کیا لیکن وہ اسلام کی تفصیلات سکھانے میں مگن ہے اور یہ ظلم قومی تعلیمی اداروں کے تعاون سے وطن عزیز پاکستان میں جاری وساری ہے۔ ایک ہی یونیورسٹی میں عربی زبان اور انگریزی زبان کے تعلیم کے معیار، مراحل اور اہداف کا مقابلہ کیا جائے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ انگریزی میں ایم اے کرنے والا تو انگریزی زبان کی بیش بہا تفصیلات سے آگاہ ہوتا اور اس میں معیاری اہلیت رکھتا ہے ، جبکہ انہی یونیورسٹیوں میں عربی زبان کی مہارت کی سند لینے والا عربی میں چند جملے بھی درست نہیں لکھ سکتا۔ اس امتیاز کی اس کے سوا کیا وجہ ہے کہ ہمارے اربابِ اقتدار اور علم ووتدریس کے مسند نشینوں کے نظریات اور اہداف ہی مختلف علو م کےلئے جداگانہ ہیں۔ وہ مشرقی ومغربی علوم کے مابین شدید تعصب کا شکار ہیں، دونوں کی افادیت کے بارے میں ان کے نظریات میں واضح بُعد پایا جاتا ہے۔ اسلام نے علم کو مشرق ومغرب کی