کتاب: محدث شمارہ 356 - صفحہ 59
’’اُنہوں نے اللہ کو چھوڑ کر اپنے علما کو اور پیروں کو خدا بنا لیا ہے اور مسیح ابن مریم علیہ السلام کو بھی ، حالانکہ اُن کو یہ حکم دیا گیاتھا کہ یہ صرف ایک خدا کی عبادت کریں۔‘‘ مولانا غلام رسول سعیدی اس آیت کے تحت لکھتے ہیں: ’’قرآنِ مجید کی اس آیت اور اس حدیث سے واضح ہوگیا کہ اللہ کے ارشاد کے مقابلے میں اپنے کسی دینی پیشوا کے قول کوترجیح دینا اوراس پر اصرار کرنا [دراصل] اُس دینی پیشوا کو خدا بنا لیناہے۔ اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صریح حدیث کے مقابلے میں اپنے کسی دینی پیشوا کو ترجیح دینا اس کو رسول کا درجہ دینا ہے۔‘‘ مزید فرماتے ہیں: ’’لیکن اس زمانے میں ہم نے دیکھا، اگر کسی شخص کے دینی پیشوا کے قول کے خلاف قرآن اور حدیث کتنا ہی کیوں نہ پیش کیا جائے، وہ اپنے دینی پیشوا کے قول کے ساتھ چمٹا رہتا ہے اورکہتا ہے کہ یہ قرآن کی آیت اور یہ حدیث اُن کو معلوم نہ تھی؟... اور وہ قرآن و حدیث کو تم سے زیادہ جاننے والے تھے۔‘‘[1] مولانا سعیدی کے بیان کے مطابق آج بھی لوگ دینی پیشواؤں کو ربّ بنائے ہوئے ہیں جبکہ دوسری طرف بعض حضرات جو اُمت میں شرک کی نفی کا ڈھنڈوراپیٹ رہے ہیں، اُنہیں سوچنا چاہئے کہ کیا اللہ کے سوا کسی کو ربّ بنانا بھی شرکِ اکبر نہیں ہے؟ 3. سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( لا تقوم الساعة حتى تلحق قبائل من أمتي بالمشرکین وحتى تعبد قبائل من أمتي بالأوثان)) [2] ’’قیامت قائم نہیں ہوگی جب تک میری اُمّت کے قبائل مشرکین سے نہ مل جائیں اور یہاں تک کہ میری اُمت کے قبائل بتوں کی عبادت نہ کریں۔‘‘ اس حدیث میں بھی اُمت کے افراد میں شرک کے پائے جانے کا واضح ثبوت ہے اور اس کو قربِ قیامت کے ساتھ خاص قرار دینا حدیث میں معنوی تحریف کے مترادف ہے۔ 4. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
[1] تبیان القرآن: 5/133 [2] سنن ابوداؤد:4252، مسنداحمد:5/278، سنن ابن ماجہ: 3952