کتاب: محدث شمارہ 356 - صفحہ 58
انتہائی حساس اورہرلمحہ فکر مند رہنا چاہئے۔ مضمون نگار کے ذکر کردہ دلائل وشبہات اور ان ازالے سے پہلے اُمتِ اسلامیہ میں شرک کے وجود پر چند دلائل بالاختصار ملاحظہ فرمائیں: 1. فرمانِ الٰہی ہے: ﴿اَلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ لَمْ يَلْبِسُوْۤا اِيْمَانَهُمْ بِظُلْمٍ اُولٰٓىِٕكَ لَهُمُ الْاَمْنُ وَ هُمْ مُّهْتَدُوْنَ۰۰۸۲﴾ ’’وہ جو ایمان لائے اور اپنے ایمان میں کسی ناحق کی آمیزش نہ کی، انہی کے لیے امان اور وہی راہ پر ہیں۔‘‘[1] اس آیتِ مبارکہ میں ظلم سے مراد شرک ہے جس کی وضاحت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ہے۔ جیساکہ صحیح مسلم میں سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: جب یہ آیت نازل ہوئی کہ’’جن مؤمنین نے اپنے ایمان کے ساتھ ظلم نہیں کیا...‘‘ تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس آیت سے بہت پریشان ہوئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: ’’ہم میں سے کون شخص ہے جو ظلم نہیں کرتا؟‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس آیت کا مطلب یہ نہیں ہے (جو تم سمجھے) بلکہ اس آیت میں ظلم سے مراد شرک ہے جس طرح لقمان علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: ’’اے بیٹے! اللہ کے ساتھ شرک نہ کرنا ،یقیناً شرک کرنا ظلم عظیم ہے۔‘‘[2] یہ آیت ایمان والوں سے متعلق ہے۔ اسی لیے صحابہ نے اسے اپنے متعلق سمجھ کر پریشانی کا اظہار کیا ۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ظلم کے مفہوم کو واضح کیا اور اُمت میں شرک کے وجود کو ردّ نہیں فرمایا بلکہ باقی رکھا اورنہ ہی اسے قربِِ قیامت کے ساتھ خاص قرار دیا ۔لہٰذا اس آیت میں شرکِ اکبر کی بات ہے اوراُمت میں اس کے وجود کا اثبات بھی۔ 2. اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿ اِتَّخَذُوْۤا اَحْبَارَهُمْ وَ رُهْبَانَهُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَ الْمَسِيْحَ ابْنَ مَرْيَمَ1ۚ وَ مَاۤ اُمِرُوْۤا اِلَّا لِيَعْبُدُوْۤا اِلٰهًا وَّاحِدًا1ۚ ﴾ [3]
[1] سورۃ الانعام :81، 82... ترجمہ ’کنز الایمان‘ از احمدرضا خاں بریلوی [2] ترجمہ از غلام رسول سعیدی، شرح مسلم، جلد /صفحہ 586 [3] التوبۃ: 31، ترجمہ تبیان القرآن از غلام رسول سعیدی، شیخ الحدیث جامعہ نعیمیہ، کراچی