کتاب: محدث شمارہ 356 - صفحہ 57
موجود ہے۔یہ مضمون کئی ایک مغالطوں اورتلبیسات کا مجموعہ ہے۔ اس میں اس امر کو ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ 1. اُمتِ محمدیہ میں شرک نہیں ہوسکتا، لہٰذا ہمیں اس کی فکر سے آزادہوجانا چاہئے۔ 2. اس مضمون میں شرک کی تعریف اس انداز سے کی گئی کہ یہود و نصاریٰ، عرب کے مشرکین اور باطل نظریات کے حامل لوگوں کا شرک بھی توحید نظر آنے لگے۔ واضح رہے کہ پاکستان کے عمومی باشندے بھی ایسے ہی اوہام کا شکار نظر آتے ہیں۔ 3. ان مضامین میں الفاظ کی ظاہری مشابہت اور قیاسات کے ذریعے بزرگوں اوراولیا کو ایسی من مانی صفات کا مستحق ٹھہرایا گیا ہے جن کی کوئی حقیقی دلیل نہیں ہے۔ 4. ضعیف اورکمزور روایات سے بزعم خویش عقیدہ توحید کی عمارت قائم کرنے کی کوشش کئی گئی ہے اور خود ساختہ تعبیرات سے احادیثِ صحیحہ اور قرآنی مفہوم کو تبدیل کیاگیا۔ 5. قبروں کی زیارت اور بعض ضعیف قصوں سے تبرکات و توسل کا استدلال کرکے اُمت کے صحیح عقائد میں انتشار کی کوشش کی گئی۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ طلبِ حق کی نیت سے قرآن مجید اور فرامین نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا بنظر غائر مطالعہ کیا جائے تو ان مغالطات کی خوب تردید ہوتی نظر آتی ہے اور کسی مخصوص سوچ سے آزاد ہوکر شرعی نصوص کا مطالعہ کیا جائے تو عقیدۂ توحید کی عظمت اور شرک کی مذمت نکھر کر سامنے آجاتی ہےاوریہ بھی ایک مسلّمہ امر ہے کہ جس طرح صدیوں قبل خالص توحید کا عقیدہ موجود تھا، آج بھی وارثانِ توحید و سنت اور اہل حق اسی پر قائم ہیں، اسی طرح اُمت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم ہ میں شرک کے وجود کا ثبوت بھی صدیوں پہلے آشکار تھا اور آج بھی واضح ہے۔ذیل میں مذکورہ اشکالات اور ان کی تائید میں پیش کیے جانے والے دلائل کا تجزیہ پیش خدمت ہے جس سے حقیقتِ حال کو سمجھنا آسان ہوگا۔ اُمت ِمحمدیہ میں شرک کا وجود اُمتِ اسلامیہ میں شرک کا وجود ایک بدترین لعنت ہے اور جب اس کے ازالے یا خاتمے کی جدوجہد کی جاتی ہے ، تو بعض لوگ ایسی تمام کوششوں کو یہ کہہ کرردّ کردیتے ہیں کہ اس دور میں اُمتِ محمدیہ میں شرک کا وجود ناممکنات میں سے ہے۔پھر اپنی بات کو ثابت کرنے کے لئے بعض خودساختہ دلائل پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ حالانکہ یہ دلائل بالکل بودے اور اٹکل پچو کے سوا کچھ نہیں۔ لہٰذا اُمتِ اسلامیہ کو شرک جیسی لعنت کے بارے میں