کتاب: محدث شمارہ 356 - صفحہ 55
طرح کے شرک کا ارتکاب کرتے ہیں۔ الخ ‘‘[1] میں کہتا ہوں اگر کوئی ناصح انہیں قرآنی آیات اور احادیثِ نبویّہ کے ساتھ نصیحت کرنے لگے تووہ سخت ناراض ہو جاتے ہیں اور ناصح کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔اسے بزرگو ں اور ولیوں کا گستاخ کہنے لگتے ہیں ، جیسا کہ صاحبِ روح المعانی مفسرِ قرآن علامہ سید محمود آلوسی بغدادی حنفی اللہ تعالیٰ کے فرمان:﴿ وَ اِذَا ذُكِرَ اللّٰهُ وَحْدَهُ اشْمَاَزَّتْ قُلُوْبُ الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ1ۚ وَ اِذَا ذُكِرَ الَّذِيْنَ مِنْ دُوْنِهٖۤ اِذَا هُمْ يَسْتَبْشِرُوْنَ۠۰۰۴۵﴾[2] یعنی’’جب اکیلے اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان لوگوں کے دل تنگ پڑ جاتے ہیں جو آخرت پر یقین نہیں رکھتے اورجب ان کا ذکر ہوتا ہے جو اس( اللہ) کے سوا ہیں تو اچانک وہ بہت خوش ہو جاتے ہیں‘‘کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ ’’ایک دن ایک شخص اپنی شدت و تکلیف کی حالت میں کسی فوت شدہ ( اپنے بزرگ) سے مدد مانگ رہا تھا اور نِدا کر رہا تھا کہ یَا فُلَانُ! أَغِثنِي ’’اے فلاں بزرگ! میری فریاد رسی کر۔‘‘ تو میں نے اسے کہا: تو یا اللہ مدد! کہہ ۔کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :﴿ وَ اِذَا سَاَلَكَ عِبَادِيْ عَنِّيْ فَاِنِّيْ قَرِيْبٌ1ؕ اُجِيْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ1ۙ ﴾[3] یعنی :جب میرے بندے میرے بارے میں آپ سے سوال کریں توبے شک میں قریب ہوں ، میں پکارنے والے کی پکار قبول کرتا ہوں جب وہ مجھے پکارتا ہے۔فرماتے ہیں جب میں نے اسے یہ آیت سنائی تو وہ غضب ناک ہو گیا ،اور مجھے یہ خبر پہنچی ہے کہ اس نے میرے متعلق کہا ہے کہ یہ اولیا کا منکر ہے۔[4] وَ اٰخِرُ دَعْوٰىهُمْ اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ۰۰۱۰ نوٹ :ہما رے اسی مضمون کو اصل سمجھا جائے اور جو اس سے قبل کہیں کسی رسالہ مثلاً : ہفت روزہ الاعتصام2012ءجلد 64/شمارہ نمبر 5 ۔6اور ہفت روزہ اہل حدیث 2012ء میں چھپا ہے، اس میں دو تین معنوی غلطیاں واقع ہوئی ہیں۔ عفا الله تعالىٰ عنّا وعافانامن جمیع الآفات. اٰمین
[1] الفوز الکبیر ،ص:23،24 [2] الزمر: 45 [3] البقرة: 186 [4] تفسیر روح المعانی ،ض:24،ص:11