کتاب: محدث شمارہ 356 - صفحہ 54
رہے ہیں۔[1] ﴿تِلْكَ اِذًا قِسْمَةٌ ضِيْزٰى۰۰۲۲﴾، ﴿ وَ سَيَعْلَمُ الَّذِيْنَ ظَلَمُوْۤا اَيَّ مُنْقَلَبٍ يَّنْقَلِبُوْنَ۰۰۲۲۷﴾ مولانا محمد حنیف یزدانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’جو لوگ قبروں کو پختہ بناتے ہیں اور ان پر عالی شان گنبد کھڑا کرتے ہیں وہ دراصل ایک دکان کی بنیاد رکھتے ہیں۔قبر کی تجارت کرتے ہیں، مقبور (میت) کو ساری عمر بیچ بیچ کر کھاتے ہیں، کچی قبر آمدنی کا ذریعہ نہیں بن سکتی، وہ عام قبروں میں مل جاتی ہے، جب مرید آئیں گے تو قبرستان کی تمام قبروں میں سے کس طرح پہچانیں گے کہ ان کا ’مشکل کشا‘ کہاں لیٹا ہوا ہے؟ مرادیں مانگنے والوں کو پیر کا روضہ دس پندرہ کوس دور سے ہی نظر آنا چاہئے۔ اسٹیشن پر اترتے ہی گنبد دکھائی دینا چاہئے، سورج کی شعاعیں رنگین کلس سے ٹکراکر زائرین کی آنکھوں میں اُتر آنی چاہئیں، ایسے مزار پر روز کے روز چڑھاوے چڑھیں گے ، جمعرات کی جمعرات نذروں کے انبار لگیں گے۔ سال میں بہت سے تہوار بھی نیازوں کا پیشِ خیمہ بنیں گے اور عرس کے موقعہ پر تو وہ ریل پیل ہو گی کہ مدتوں نسلیں عیش کریں گی۔ یہ فائدے گنبد، قبے والی پختہ قبر کے ہی ہو سکتے ہیں.... ‘‘ علامہ اقبال فرماتے ہیں: جن کو آتا نہیں کو ئی فن تم ہو نہیں جس قوم کو پروائے نشیمن تم ہو بجلیاں جس میں ہوں آسودہ وہ خرمن تم ہو بیچ کھاتے ہیں جو اسلاف کے مدفن تم ہو ہو نیکو نام جو قبروں کی تجارت کرکے کیا نہ بیچو گے جو مل جائیں صنم پتھرکے[2] شاہ ولی اللہ دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’ اگر آپ مشرکین کے حال ،عقائد اور اعمال کا نمونہ دیکھنا چاہتے ہیں تو ہمارے زمانہ کے پیشہ ور لوگوں کے احوال دیکھ لو ،بالخصوص وہ جو ہندوستان کے اطراف وجوانب میں رہائش پذیر ہیں۔قبروں اور آستانوں کی طرف جاتے ہیں اور طرح
[1] دیکھئے گستاخ کون ؟ص 158، 159 [2] دیکھئے زیارتِ قبور کا شرعی طریقہ ،ص:23،24،از مولانا محمد حنیف