کتاب: محدث شمارہ 356 - صفحہ 52
ذَلِكَ [1] ’’یعنی عبد اللہ کے اس اثر میں اس بات کی دلیل ہے کہ قبر پر خیمے نصب کرنا مکروہ ہے اور اس سے میت کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا۔‘‘ مسند احمد میں ابو موسیٰ علیہ السلام اشعری کی وصیت ہے: لاَ تَجعَلُوا عَلىٰ قَبري بِناءً [2] ’’میری قبر پر کوئی عمارت نہ بنانا۔ ‘‘ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے اپنی وفات کے وقت وصیت کی تھی کہ لاَ تَضرِبُوا عَلَىَّ فُسطَاطًا[3] ’’میری قبر پر خیمہ نہ لگانا۔ ‘‘ تابعیِ کبیر سعید بن مسیب رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے مرض الموت میں وصیت کرتے ہوئے کہا تھا: إِذَا مَا مِتُّ فَلاَ تَضرِبُوا عَلى قَبرِ فُسطَاطًا [4] ’’ جب میں وفات پا جاؤں تو میری قبر پر خیمہ نہ لگانا۔‘‘ تابعی کبیر محمد بن کعب قرظی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے: هَذِهِ الفَسَاطِیطُ الَّتِي عَلىٰ القُبُورِ مُحدَثَة[5] یہ خیمے جو قبروں پر بنائے جاتے ہیں،یہ بدعت ہیں۔ دوغلی پالیسی پر تعجب و حیرت پھر حیرت کی بات یہ ہے کہ ایک طرف کاظمی ضیائی صاحب فی زمانہ قبروں پر بنے قبے گرانے کو مذموم حرکت قرار دے رہے ہیں اور گرانے کے جواز کا فتویٰ دینے والوں کو ’وہابی خبیث ظالم‘ کہہ رہے ہیں اور دوسری طرف قبروں پر قبے بنانے کو کبیرہ گناہ اور قبے گرانے کو واجب سمجھنے والے احمد بن حجر مکی شافعی صوفی(متوفی 974ھ) کو کاظمی ضیائی کے بڑے مناظر ’مفتی‘ محمد حنیف قریشی صاحب اچھے اچھے بلند القاب سے ملقب کرتے ہوئے انھیں مشہور محدث ، علامہ ،نیز محدثِ کبیر، حضرت اور امام قرار دیتے ہوئے ساتھ رحمۃ اللہ علیہ کی دعا
[1] عمدة القاری: 8/ 183 [2] حدیث نمبر : 9439 [3] مصنف ابن ابی شیبہ: ج3/ص 216 [4] طبقات ابن سعد: ج5/ص 142 [5] مصنف ابن ابی شیبہ : 3/ 216