کتاب: محدث شمارہ 356 - صفحہ 51
’’میں نے مکہ میں دیکھا کہ قبروں پر جو کچھ بنایا جاتا تھا، ائمہ (یعنی حکام ) اس کے گرانے کا حکم دیتے تھے۔‘‘ قبروں پر بنے ہوے قبے منہدم کرنے پرعلماے مصر کا اتفاق علامہ جلال الدین سیوطی رحمۃاللہ علیہ نے حسن المحاضرة فی تاریخ مصر والقاہرة میں[1] مصر میں قبروں پر تعمیرات و قبے وغیرہ منہدم کر نے پر ملک ظاہر بیبرس کے دور کے محققین علما کا اتفاق ذکر کیا ہے۔ ملک ظاہر نے اس وقت کے فقہا ( مثلاً: فقیہ علامہ ظہیر تزمنتی اور شیخ بہاء الدین بن جُمیزی اور ان جیسے علماے وقت )سے اس کا فتویٰ طلب کیا تھا تو ان سب نے خطوط لکھے اور بیک زبان ہو کر اتفاق کیا کہ حکمران پر ضروری ہے کہ ان سب کو ڈھادے اور بنوانے والوں کو مکلف کرے کہ اس کا ملبہ کیمان میں پھینک آئیں۔ یہ بھی یاد رہے کہ امام شافعی کی قبر پر بنا ہوا قبہ بھی مصر ہی میں ہے۔ [2] علامہ بدرالدین عینی حنفی کا موقف احناف کے بہت بڑے علامہ اور شارح صحیح بخاری بدر الدین عینی رحمۃ اللہ علیہ نے قبر پر خیمہ بنانا بھی مکروہ کہا ہے۔ چنانچہ صحیح بخاری میں ہے کہ رَأَى ابنُ عُمَرَ فُسطاطًا علىٰ قبرِ عبدِ الرَّحمٰن فقال: اِنزِعه یا غلامُ فإنَّما یُظلُّه عَمَلُه [3] ’’عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے عبد الرحمٰن بن ابو بکر کی قبر پر ایک خیمہ دیکھا تو اُنہوں نے ( اُمّ المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا ) کے غلام سے کہا: اے غلام! اس خیمے کو اتار لو، اس کے نیک عمل ہی اس پر سایہ کریں گے۔‘‘ علامہ عینی حنفی رحمۃ اللہ علیہ اس اثرکی شرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں: فَدَلَّ هٰذا عَلىٰ أَن نَصبَ الخِیامِ علىٰ القَبرِ مکرُوه ولا یَنفعُ الْـمَیِّتَ
[1] ج1،ص 141 [2] حسن المحاضرة:1/ 141 [3] کتاب الجنائز، باب الجرید على القبر