کتاب: محدث شمارہ 356 - صفحہ 5
ایک سنگین ملّی جرم ہے جس کا ارتکاب دورِ حاضر کے مسلم معاشروں میں بہ تکرار کیا جارہا ہے!! آج مغرب کی پروردہ ، مسلم معاشروں کی سیکولر یونیورسٹیوں میں علوم اسلامیہ کی سب سے اعلیٰ ترین سند پی ایچ ڈی کے لئےدو سے تین سال کی براہ راست تعلیم کافی سمجھی جاتی ہے۔ جس تعلیمی دورانیہ کا نصف سے زائد وقت بھی خالص علوم اسلامیہ کے بجائے ، اس کے معاون علوم میں صرف ہوجاتا ہے۔ مثال کے طورپر ایم اے اسلامیات کے نصاب میں شامل پرچوں میں قرآن وحدیث اور فقہ کو نکال کر، باقی پرچے یعنی اسلام اور سائنس، اسلام اور تحریکیں، تقابل ادیان، فلسفہ وعلم الکلام، معاصر اسلامی دنیا وغیرہ علوم اسلامیہ کے وہ پہلو ہیں جنہیں امدادی علوم قرار دیا جاسکتا ہے۔اس کے بعد پی ایچ ڈی مرحلہ کی ایک سالہ تعلیم میں بھی انگریزی زبان، کمپیوٹراوراُصولِ تحقیق ایسے معاون مضامین کی تدریس جاری رہتی ہے۔ ظاہر ہے کہ قوم کے مرکزی دھارے اور تعلیم کے مرکزی نظم میں علوم اسلامیہ کی محض ڈیڑھ دو سالہ تعلیم انتہائی ناکافی ہے، جس سے اسلامیات کی مہارت پیدا ہونے کا دعوٰی کیا جاسکے۔ ان مغربی یونیورسٹیوں میں علوم اسلامیہ کی تعلیم کا دائرہ عمل اس نوعیت کے ایک آدھ شعبہ تک ہی محدود رہتا ہے۔ اس کے بالمقابل انہی جامعات میں سائنس وٹیکنالوجی کی تعلیم کے لئے درجنوں شعبے سرگرم عمل ہوتےہیں، سائنس کی ایسی ایسی امکانی شاخیں یہاں پڑھائی جاتی ہیں جن کے موضوع کو سمجھ لینے بھی معقول صلاحیت درکار ہے ۔ دوسری طرف انہی مسلم ممالک میں سائنس وانجنیئرنگ کی صرف ایم اے تک اہلیت کے لئے 8 سال تک پڑھایا جاتا ہے ، اُس کے بعد کہیں جاکر اُنہیں سائنسز کا گریجویٹ سمجھا جاتا ہے۔ تفصیل اس کی یہ ہے کہ سائنس وانجنیئرنگ کے لئے مڈل تک جنرل سائنس کے وقیع نصاب کے بعد، میٹرک سائنس مضامین کےساتھ، پھرپری میڈیکل اورپر ی انجنیئرنگ اور انٹر میڈیٹ کے بعد مزید چارچارسالہ کورسز ، تب کہیں جاکر کسی طالب علم کو سائنس کے کسی میدان میں فضیلت کا پہلا درجہ حاصل ہوتا ہے۔ اگر اس کے بعد پی ایچ ڈی تک وہ جانا چاہے تو ان 8سالوں پر مزید 5سال شامل کرلینے چاہئیں۔ہمارے ملک میں قانون کی تعلیم کے لئے بھی کم ازکم 5 سال کی تعلیم کے بعد سندِ فضیلت دی جاتی ہے لیکن اسلام ہی علم کی ایسی مظلوم شاخ ہے کہ روزِ اول سے نصاب کے کمزور ترین رسالے، کوئی بھی استادحتیٰ کہ بعض اوقات کسی غیرمسلم