کتاب: محدث شمارہ 356 - صفحہ 48
بھی۔لفظی تحریف تو یہ ہے کہ اُنہوں نے لفظِ اَدم بروزن فَرَس کو تبدیل کر کے آدَم بروزن عالَم اور قالَب بنا دیا ہے اور کتاب میں حدیث کے اندر ہی آدم لکھ دیا ہے۔ اور معنوی تحریف یہ کی ہے کہ اولاً: ادم سے حضرت آدم علیہ السلام مراد لئے ہیں اور ترجمہ بھی آدم علیہ السلام ہی کیا ہے۔ ثانیاً: قُبَّةسے قبر پر بنایا گیا گنبد و مزار مراد لیا ہے۔ لاکھوں کروڑوں روپیہ خرچ کر کے مزعومہ بزرگوں کی اصلی وغیر اصلی قبروں پر جو قبے بنائے جاتے ہیں، ان کے جواز کے لئے تحریف و تبدیل کردہ یہ حدیث بطورِ دلیل پیش کی ہے۔ یعنی حدیث کا لفظ بھی بدلا اور ترجمہ بھی غلط کیا اور قبہ اَدم میں جو اضافتِ بیانیہ تھی، اسے بھی تبدیل کر کے اضافت ِلامیہ بنا دی ۔ یعنی قُبَّةٍ مِّن اَدَمٍ کو بدل کر قُبَّةٍ لآدَمَ بنا دیا۔ حالانکہ صحیح مسلم والی عبد اللہ بن مسعود کی یہی حدیث صحیح بخاری میں بھی ہے ، اس کے الفا ظ سے بھی روزِ روشن کی طرح واضح ہے کہ اس جگہ اضافتِ بیانیہ ہے ، چنانچہ بخاری میں یہ الفاظ ہیں: بَیْنَمَا رَسُوْلُ الله صلی اللہ علیہ وسلم مُضِیف ظَهْرَهُ إِلى قُبَّةٍ مِنْ أَدَمٍ یَـمَان [1] یعنی ’’ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یمنی چمڑے کے خیمہ کے ساتھ ٹیک لگائے ہوئے تھے تو آپ نے ہمیں خطبہ دیا۔ الخ‘‘ قارئین! آپ دیکھ رہے ہیں کہ اس حدیث میں کتنے صاف الفاظ ہیں یعنی قُبَّةٍ مِّن اَدَمٍ یَمَانٍ یمنی چمڑے سے بنایا گیا قبہ (یعنی خیمہ) کیا حضرت آدم علیہ السلام کی قبر مدینہ نبویہ یا مسجدِ نبوی میں ہے؟ پھر آپ حضرات ایک اور طرح سے بھی سوچیں کہ کیا سیدناآدم علیہ السلام کی وفات مدینہ نبویہ میں ہوئی تھی؟ اور کیا ان کا قبہ یعنی دربار اور مزار مسجدِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں تعمیر ہوا تھا؟ وہ مسجد نبوی کے کس کونے میں تھا؟ یا پھر مدینة النبي صلی اللہ علیہ وسلم میں تھا اور کہاں تھا؟ اس کا ثبوت ضیائی اور قریشی صاحب کے ذمہ ہے۔
[1] صحیح بخاری: کتاب الأیمان والنذور ، باب کیف کانت یمین النبي صلی اللہ علیہ وسلم : 6642