کتاب: محدث شمارہ 356 - صفحہ 47
اگراضافت کی قسم ان دونوں میں سے کوئی بھی نہ ہوتو اسے اضافتِ لامیہ کہا جاتا ہے جیسے : کِتَابُ خَالِدٍ خالد کی کتاب۔ اس میں خالد نہ کتاب کی جنس سے ہے اور نہ ہی اس کا ظرفِ زمان و مکان ہے، اس میں عام طور پر لام مقدر ہوتا ہے یعنی کِتَاب لِّـخَالِدٍ[1] مسلم شریف میں وارد حدیث میں مذکورہ الفاظ :قُبَّة اَدَمٍ میں اضافتِ معنوی بیانی ہے۔ کیونکہ اس میں مضاف قُبّة بمعنی خیمہ،أدم بمعنی چمڑا کی جنس سے ہے یعنی قُبّة مِن أَدَم۔ جیسا کہ کوئی کہے ثَوبُ حَریرٍیعنی: ثَوب مِن حَرِیر ریشم کا لباس۔ جیسا کہ قرآن حکیم میں ہے: ﴿ عٰلِيَهُمْ ثِيَابُ سُنْدُسٍ ﴾[2] کپڑے اور ریشم ہم جنس ہیں۔ اسی طرح قُبّة(خیمہ) اور أدَم (چمڑا)ہم جنس ہیں۔ یعنی خیمہ کا مادہ (جس سے خیمہ بنایا گیا ہے) چمڑا ہے، جیسا کہ انگوٹھی کا مادہ چاندی اور کپڑے کا مادہ ریشم ہے۔اور ان سب میں مِنمقدر یعنی پوشیدہ ہے یعنی خَاتَم مِن فِضَّةٍ، ثِیَاب مِّن سُندُسٍ اور ثَوب مِن حَریرٍ. اب ہم اس کی دلیل بھی احادیث ہی سے مہیا کرتے ہیں کہ اس جگہ قُبَّةِ اَدَمٍ اضافتِ بیانی ہے نہ کہ لامی اور ظرفی۔ اس میں مضاف اور مضاف الیہ کے درمیان میں مِن پوشیدہ ہے۔ چنانچہ بہت سی احادیث میں یہ مِن ذکر بھی ہوا ہے۔ جیسا کہ بخاری شریف میں کتاب فرض الخمس، باب نمبر 13 حدیث 4137 میں انصار صحابہ کے بارے میں مذکور ہے: فَجَمَعَهُم فِي قُبَّةٍ مِن اَدمٍ’’آ دم نے اُنھیں چمڑے کے ایک قبہ (یعنی خیمہ) میں جمع کیا‘‘ ابو جحیفہ رضی اللہ عنہ کابیان ہے کہ رَأَیتُ رَسُولَ الله صلی اللہ علیہ وسلم فِي قُبَّةٍ حمراء مِن اَدَمٍ[3] میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چمڑے کے ایک سرخ قُبَّه (یعنی خیمہ) میں دیکھا۔ زیرِ نظرحدیث میں لفظی و معنوی تحریف کا ارتکاب اَب قارئین حضرات کاظمی ضیائی صاحب کی حدیثِ نبوی میں تحریف و تبدیلی بخوبی سمجھ گئے ہوں گے، وہ یہ کہ انہوں نے اس حدیث میں لفظی تحریف بھی کی ہے اور معنوی تحریف
[1] اس کی تفصیل شرح ابن عقیل علیٰ الفیہ ابن مالک مبحث ’الاضافۃ‘ :ج3/42،43 میں دیکھی جا سکتی ہے نیز معارف النحو، از عبد اللہ توحیدی میں بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ (ص 213) [2] سورۃ الدہر:21 [3] صحیح بخاری: کتاب الصلوٰة ، باب الصلوٰة في الثوب الأحمر: 376