کتاب: محدث شمارہ 356 - صفحہ 46
تُرکِیّةٍ لَهَا مذکورہیں کہ وہ اپنے ترکی خیمہ میں تھیں۔[1] ابو جحیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: رَأَیتُ قُبَّةً حمراءَ مِن اَدَمٍ لِرَسُوْلِ الله صلی اللہ علیہ وسلم [2] ’’میں نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے لگایا گیا چمڑے کا سرخ رنگ کا چھوٹا سا خیمہ دیکھا۔ ‘‘ ایک اور صحابی رضی اللہ عنہ کا بیان ہے: دَخَلَ عَلَیْنَا رَسُوْلُ اللهِ وَ نَحنُ فِي قُبَّةٍ فِي مَسجِدِ المَدِینَةِ... الخ [3] ’’رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس آئے جبکہ ہم مدینہ کی مسجد میں ایک قبہ(خیمہ) میں تھے۔‘‘ یہی وجہ ہے کہ کاظمی ضیائی صاحب کے ہم مسلک و فکر اور بریلویہ کے نامور عالم علامہ غلام رسول سعیدی نے بھی صحیح مسلم کی اس حدیث کا ترجمہ اسی طرح کیا ہے کہ ’’ایک چمڑے کے خیمے کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ٹیک لگائے خطبہ دے رہے تھے۔ الخ‘‘[4] قواعدِ عربیہ یعنی علم نحو کی روشنی میں اس تحریف و تبدیلی کی وضاحت جو اہلِ علم طلبا و مدرّسین، علم نحو ( یعنی عربی قواعد) جانتے ہیں اُنھیں خوب علم ہے کہ عربی گرامر میں اضافت کے بارے میں ایک مستقل بحث ہوتی ہے، اس کی تعریف اور مختلف اعتبار سے تقسیم ہوتی ہے اور اضافت ِمعنوی کی تین قسمیں ہوتی ہیں: اضافتِ لامیّہ اضافتِ بیانیہ اضافت ظرفیہ اگر مضاف الیہ مضاف کی جنس ہو تو اسے اضافتِ بیانیہ کہا جاتا ہے جیسے: خاَتَمُ فِضَّةٍ چاندی کی انگو ٹھی۔ اس میں انگوٹھی چاندی کی جنس سے ہےیعنی خاتم من فضّة اگر مضاف الیہ مضاف کی ظرف ہو تو اسے اضافتِ ظرفیہ کہا جاتا ہے جیسے: صَلوٰة اللَّیل یعنی رات کی نماز یعنی اللیل (رات) نماز پڑھنے کا ظرف زمان ہے۔ اسی طرح قرآن میں وارد ﴿ بَلْ مَكْرُ الَّيْلِ وَ النَّهَارِ ﴾ [5]سے مراد: المکر في اللیل والنهار ہی ہے۔
[1] صحیح بخاری، کتاب الحج، باب طواف النساء مع الرجال: 1618 [2] مسند احمد: ج4/ص 308 [3] سنن نسائی ، کتاب تحریم الدم ، باب نمبر 1 : 3980 [4] دیکھئے شرح صحیح مسلم: ج1/ص 846، از علامہ غلام رسول سعیدی بریلوی [5] سورۃ السبا: 33