کتاب: محدث شمارہ 356 - صفحہ 45
لغت کی مشہور کتاب المُعجم الوسیط میں ہے: خَیمَة صَغِیرَة أَعلَاهَا مُستَدِیر [1] یہ خیمہ عرب کے اندر عام تھا اور وہ سفر و حضر میں بنا لیا کرتے تھے۔ مسجدِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے اندر بھی بنا لیا جاتا تھا۔اس طرح کا قُبّہ(خیمہ) عرب لوگ حج کے ایام میں منیٰ و عرفات وغیرہ میں بنالیا کرتے تھے۔ یہ خیمہ چمڑے اور کپڑے وغیرہ سے بنایا جاتا تھا۔ لفظِ ’قبّہ‘ بمعنیٰ خیمہ کئی ایک احادیث میں وارد ہوا ہے۔ مثلاً: 1. صحیح بخاری میں ہے کہ اُمّ المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا صدیقہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مسجد میں اعتکاف بیٹھنے کی اجازت مانگی تو آپ نے اجازت مرحمت فرمائی: فَضَرَبَت فِیهِ قُبَّةً تو اُنھوں نے مسجد میں ایک قبّہ(چھوٹا سا خیمہ)لگالیا۔ پھر اُمّ المومنین حفصہ بنت عمر بن خطابؓ کو پتہ چلا تو انھوں نے بھی ضَرَبَت قُبَّةً یعنی ایک چھوٹا سا خیمہ لگا لیا۔ اسی طرح اُمّ المومنین سیدہ زینب رضی اللہ عنہا نے بھی ایک خیمہ لگا لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب فجر کی نماز پڑھائی تو أَبصَرَأَربَعَ قِبَابٍ یعنی مسجد میں چار خیمے لگے دیکھے۔ الخ [2] اس بات کی دلیل کہ اس حدیث میں وارد لفظ قُبّہ یا قِبَاب کا معنی چھوٹا خیمہ ہی ہے، یہ ہے کہ اسی حدیث پر امام بخاری رحمۃاللہ علیہ نے یہ باب بھی منعقد کیا ہے: بَابُ الأخبِیَة فِي المَسجِدِ (مسجد میں خیمے لگانے کا بیان یعنی اعتکاف کے لئے) اس حدیث میں قُبّہ کی جگہ پر اس کے راوی امام مالک رحمۃاللہ علیہ نے خِبَاء(خیمہ) کا لفظ استعمال کیا ہے۔ 2. امام بخاری رحمۃاللہ علیہ یہ حدیث باب اعتکاف النساء میں بھی لائے ہیں۔ اس میں اس کے راوی حماد بن زید نے بھی قبہ کی جگہ خباءکا لفظ ہی استعمال کیا ہے بلکہ ان دونوں یعنی امام مالک رحمۃ اللہ لعیہ اور حماد بن زید نے قبّہ کی جمع قِبَاب کی جگہ اَخبِية یعنی خِبَاء کی جمع کا لفظ استعمال کیا ہے جو اس بات کی واضح دلیل ہے کہ اس حدیث میں وارد لفظ’ قبّہ‘ کا معنیٰ چھوٹا خیمہ ہی ہے۔ 3. اسی طرح اُمّ المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے لئے منیٰ میں ایک ترُکی قُبّہ (یعنی چھوٹا خیمہ) لگا دیا گیا تھا تاکہ وہ عام لوگوں سے حجاب میں رہیں۔ چنانچہ صحیح بخاری میں یہ الفاظ:هِیَ فِي قُبّةٍ
[1] المعجم الوسیط : مادہ ق ب ب [2] صحیح بخاری، کتاب الإعتکاف، باب الإعتکاف في شوال:2041