کتاب: محدث شمارہ 356 - صفحہ 44
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبہ آدم علیہ السلام علیہ السلام کے ساتھ ٹیک لگا کر (ہمیں) خطبہ اِرشاد فرمایا اور فرمایا: آگاہ رہو کہ جنت میں سوائے مسلمان کے کوئی داخل نہیں ہو سکتا۔‘‘ الحدیث پھر کہتے ہیں: اس سے ثابت ہوا کہ قبہ گرانا واجب نہیں۔ اگر قبہ گرانا واجب ہوتا تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ ارشاد فرمانے سے پہلے اس قبہ کو گرانے کا حکم اِرشاد فرماتے۔ ‘‘[1] اصل حقیقت میں کہتا ہوں کہ اس حدیث کے الفاظ اس طرح ہیں: خَطَبَنَا رَسُولُ الله صلی اللہ علیہ وسلم فَأَسنَدَ ظَهرَهُ إِلىٰ قُبَّةِ أَدَمٍ فَقَالَ: «أَلاَ لاَ یَدخُلُ الجَنَّـةَ إلَّا نَفس مُسلِمَة» [2] اب اس کا اصل اور صحیح ترجمہ اس طرح ہے : ’’سیدنا عبد اللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ نے ہمیں خطبہ ارشاد فرمایا تو اپنی کمر کو چمڑے سے بنے ہوئے ایک خیمے سے ٹیک دیا (یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس چمڑے کے خیمے کے ساتھ ٹیک لگا لی) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :...الخ مسلم شریف میں موجود عبد اللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ کی یہی حدیث صحیح بخاری میں بھی ہے، اس کے الفاظ سے بھی روشن سورج کی طرح واضح ہے کہ اس جگہ یہی ترجمہ صحیح ہے، چنانچہ صحيح بخاری میں یہ الفاظ ہیں: بَینَمَا رَسُولُ الله صلی اللہ علیہ وسلم مُضِیف ظَهرَهُ إِلىٰ قُبَّةٍ مِن أَدَمٍ یَمَانٍ [3] ’’ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یمنی چمڑے کے خیمہ کے ساتھ ٹیک لگائے ہوئے تھے تو آپ نے ہمیں خطبہ دیا...الخ‘‘ لفظِ قُبّـة کی تحقیق ہم کہتے ہیں کہ لفظ قُبّہ کا معنیٰ ’’چھوٹا خیمہ جو اوپر سے گول ہو‘‘ بھی ہے۔ چنانچہ عربی
[1] ’گستاخ کون ؟‘: ص159 (راولپنڈی میں ہونے والا تاریخی مناظرہ) از سید امتیاز حسین کاظمی ضیائی [2] مسلم،کتاب الایمان، باب بیان كون هذه الأمة نصف أهل الجنة:531، مترجم نسخہ:1/309 [3] صحیح بخاری،کتاب الایمان والنذور، باب کیف کانت یمین النبي:6642