کتاب: محدث شمارہ 356 - صفحہ 43
مناظر مفتی محمد حنیف قریشی بریلوی کے اِفادات ہی سے ہیں جیسا کہ اس کی وضاحت انھوں اسی کتاب کے ص40 پر خود کی ہے۔ اَب یہ بات تو اہل علم و تحقیق کو بخوبی معلوم ہی ہے کہ فی زمانہ قبر پرست لوگ بزرگوں کی قبروں پر لاکھوں کروڑوں کے جوقبے اور مزارات تعمیر کرتے ہیں ،کتاب و سنت میں اُن کی کوئی دلیل نہیں۔قبروں پرجو مزار یا دربار تعمیر کئے جاتے ہیں، ان کا اصل مقصد تو یہ ہوتا ہے کہ لوگ دور دراز سے اِن قبروں میں مدفون بزرگوں سے مرادیں مانگنے، مشکلات حل کرانے، چڑھاوے چڑھانے اور نذرانے پیش کرنے کے لئے حاضری دیں۔ اسی لئے ان پر سالانہ عرس بھی منائے جاتے ہیں تاکہ ان کی سرپرستی کرنے والے گدی نشین مال و دولت سے مالا مال ہوں۔اسی لئے ان درباروں، مزاروں کے تحفظ کی خاطر کئی ایک جھوٹ بولے جاتے ہیں اور عوام الناس کی آنکھوں میں دھول ڈالی جاتی اور اُنہیں اصل حقائق سے در پردہ رکھا جاتا ہے۔ اُنھیں یہ بتایا ہی نہیں جاتا کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی فرمان سے ثابت نہیں، نہ ہی کسی صحابی رضی اللہ عنہ سے ثابت ہیں اور نہ ہی تابعین رحمۃ اللہ علیہم سے، حتیٰ کہ اَئمہ اربعہ امام مالک، ابو حنیفہ ،شافعی اور احمد رحمۃاللہ علیہم سے بھی ان کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔لیکن صد اَفسوس کہ ان درباروں، مزاروں کو ثابت کرنے اور اُنہیں اسلام کا حصہ قرار دینے کی خاطر اس عظیم ہستی صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھتے بھی شرم نہیں کی جاتی، جس نے یہ فرمایا ہے: (( مَنْ کَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْیَتَبَوَّأ مَقعَدَه مِنَ النَّارِ)) [1] ’’جو کوئی مجھ پر عمداً جھوٹ باندھے وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے۔‘‘ چنانچہ اسی کتاب ’گستاخ کون؟‘ کے ص 158،159 پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث مبارکہ میں تحریف و تبدیلی کرتے ہوئے مزار و دربار بنانے کی دلیل مہیا کرتے ہوئے کاظمی ضیائی صاحب لکھتے ہیں: ’’مسلم شریف جلد اوّل، ص 117 پر حضرت عبد اللہ بن مسعود سے مروی ہے کہ آپ فرماتے ہیں: خَطَبَنَا رَسُولُ الله صلی اللہ علیہ وسلم فَأَسنَدَ ظهره إليٰ قبّـة آدم فقال: (( ألا لا یدخل الجنّة إلا نفس مسلمة))
[1] صحیح بخاری : 1229