کتاب: محدث شمارہ 356 - صفحہ 42
تحقیق وتنقید مولانا عبد الرحمٰن ضیاء [1] صحیح مسلم کی ایک حدیث میں تحریف کا علمی جائزہ [ قبروں پر قبے بنانے کی شرعی حیثیت] جس شخص نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھا، خواہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ میں ہو یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد کسی زمانہ میں، اللہ تعالیٰ نے اس کو مخفی نہیں رہنے دیا، بلکہ اس کا حال لوگوں کے سامنے ضرور واضح کر دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھنے کی بدترین صورت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثِ مبارکہ میں تحریف و تبدیلی کا ارتکاب کرنا ہے۔امام محدث سفیان بن عیینہ رحمۃ اللہ علیہ کا فرمان ہے کہ "مَا سَتَرَ اللهُ أَحَدًا یَکذِبُ فِي الحَدِیْثِ"[2] ’’ جو بھی حدیث میں کذب بیانی کرتا ہے، اللہ تعالیٰ نے اس کی پردہ پوشی نہیں کی۔‘‘ محدث عبد اللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: لَو هَمَّ رَجُل فِي السَّحَرِ أَن یَّکذِبَ فِي الحَدِیْثِ، لَأصْبَحَ وَالنَّاسُ یَقُولُونَ: فُلاَن کَذَّاب [3] ’’اگر کوئی شخص سحری کے وقت حدیث شریف میں جھوٹ بولنے کا قصد کر لے تو صبح کے وقت ہی لوگ یہ کہہ رہے ہوں گے کہ فلاں (حدیث میں جھوٹ بولنے والا) شخص کذاب ہے۔ ‘‘ حال ہی میں660 صفحات پر مشتمل ’گستاخ کون؟‘ نامی ایک کتاب چھپی ہے جو مفتی محمد حنیف قریشی بریلوی اور سید طالب الرحمٰن شاہ کے مابین مناظرہ پر مشتمل ہے اور سید امتیاز حسین شاہ کاظم ضیائی بریلوی نے اسے ترتیب دیا ہے اور کاظمی ضیائی صاحب نے اس کتاب کے مختلف مقامات پر ضروری حاشیہ جات بھی لگائے ہیں اور یہ اکثر حاشیہ جات بھی اُن کے
[1] شیخ الحدیث جامعہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃاللہ علیہ ، لاہور [2] شرح عقیدہ طحاویہ از ابن ابی العز حنفی: 1/229 [3] شرح عقیدہ طحاویہ از علامہ ابن ابی العز حنفی ص502 بہ تحقیق و تعلیق ڈاکٹر عبد اللہ عبد المحسن ترکی