کتاب: محدث شمارہ 356 - صفحہ 41
مریض ہو تو اس کی عیادت کونہیں جاسکتا۔ اللہ کے ساتھ تعلق اس قدر غالب ہے کہ وہ دوسرے تمام تعلقات پر غالب آجاتاہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہستی معلّم و اُستاد کی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا طرز ِعمل بتاتا ہے کہ رمضان تو وہ مہینہ ہے جس میں دین کے معلّم و استاد کو بلکہ تمام ہی علما و مشائخ کو اپنی ذات کے لیے وعظ و نصیحت کا اہتمام کرنا چاہیے۔جیسا کہ مندرجہ بالا تمام احادیث سے اساتذہ کے لیے یہی پیغام نکلتا ہے کہ وہ رمضان میں قرآن سے نصیحت اور عبادت سے تعلق الٰہی مضبوط بنائیں تاکہ پورا سال تازہ دم ہوکر دین کی خدمت کریں۔رمضان اپنی ذات کے لئے نصیحت بالقرآن حاصل کرنے کا مہینہ ہے۔گویا یہ مہینہ اللہ سے لولگانے اور شمع ایمان کو پختہ کرنے، اور عوامی الفاظ میں اپنی بیٹری چارج کرنے کےلیے ہے۔ جیسا کہ احادیث سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جبرئیل علیہ السلام کے ساتھ مل کر دورہ کرتے تو سنت یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ علما کو چاہیے کہ وہ بھی باہم مل کر اپنے لیے قرآن کی مجالس کا اہتمام کریں اور ایک دوسرے کوقرآن سنا کر نصیحت کریں۔ ان عبادات و اعمال سے یہ سمجھ آتا ہے کہ رمضان اصلاً عبادت اور ذاتی تربیت کا مہینہ ہے،تعلیم و تبلیغ پر ہی اکتفا کرلینا رمضان المبارک کے عظیم ووسیع مقاصد کو پورا نہیں کرتا۔ جیسا کہ ہمارے ہاں کچھ سالوں سے یہ معمول ہی بن گیا کہ رمضان کو دورۃ القرآن یا دورۃ النحو، دورۃ اللغۃ العربیہ یا مزید ایسے ہی تعلیمی دوروں کے لیے مختص کرلیا گیاہے،گویا رمضان تعلیم و تعلّم کا مہینہ ہی بن کر رہ گیا ہے۔ نیز یہ بھی معلوم ہوتا ہےکہ قرآنِ مجید بہ نسبت دن کے، رات کو پڑھنا زیادہ افضل ہے، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر رات جبرئیل علیہ السلام کوقرآن سناتے۔ ادھر سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اگر رمضان ذاتی عبادت و تزکیے کی بجائے محض تعلیم و تبلیغ کامہینہ ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن مجید کا یہ دورہ جبرئیل علیہ السلام کے سامنے نہیں بلکہ صحابہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کیا کرتے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں رمضان المبارک سےکماحقہ استفادہ کرنے، زیادہ سے زیادہ عبادات بجا لانے اور اپنی اصلاح وتربیت کی توفیق مرحمت فرمائیں۔ واللہ الموفق والمستعان !