کتاب: محدث شمارہ 356 - صفحہ 40
یعنی آپ اپنی اُمت کوقرآن سنا سنا کر ہلکان ہوتے، اس کی طرف دعوت کی اذیتیں برداشت کرتے، مخالفوں کے طعن و تشنیع سنتے۔آپ کو برا بھلا کہا جاتا حتیٰ کہ آپ پر نادان وظالم دست درازی بھی کرتے، ان کے استخفاف و استحقار کا آپ سامنا کرتے۔ پھر انہی کے غم میں گھلتے اور دعائیں کرتے او رکبھی کبھار یہ جذبات حد سے بڑھ جاتے تو عجیب عجیب خیال آتے کہ شاید میں صحیح تبلیغ نہیں کرپارہا۔ شاید اللہ فلاں معجزہ دکھلا دیں تو لوگ ایمان لے آئیں۔ شاید لوگوں کا یہ مطالبہ تسلیم کرلیا تو... شاید...شاید!! یہ وہ مشقت تھی جس پر اللہ فرماتے:إن عليك إلا البلاغ! رمضان المبارک تعلیم وتعلّم سے بڑھ کر ذاتی اصلاح وتربیت کا مہینہ ہے! اس ساری تگ و تاز کا مقصد کیا تھا، ماسوا اللہ کی رضا کے؟ آیا یہ عبادت تھی کہ نہیں۔ لیکن اللہ ربّ العزّت کیا فرماتے ہیں: ﴿ اِنَّ نَاشِئَةَ الَّيْلِ هِيَ اَشَدُّ وَطْاً وَّ اَقْوَمُ قِيْلًاؕ۰۰۶ اِنَّ لَكَ فِي النَّهَارِ سَبْحًا طَوِيْلًاؕ۰۰۷ وَ اذْكُرِ اسْمَ رَبِّكَ وَ تَبَتَّلْ اِلَيْهِ تَبْتِيْلًاؕ۰۰۸﴾[1] ’’دن میں تو آپ کوبڑے کام ہوتے ہیں۔اپنے ربّ کے نام کا ذکر کیجئے او رہر طرف سے منقطع ہوکر صرف اُسی کی طرف متوجہ ہوجائیے‘‘ اور یہ رات کو جاگنے کا حکم دینے کے بعد فرمایا کہ آپ کو رات کا جاگنا اس لیے ضروری ہے۔ نیزسورۃ الشرح میں اللہ نے فرمایا: ﴿ فَاِذَا فَرَغْتَ فَانْصَبْۙ۰۰۷ وَ اِلٰى رَبِّكَ فَارْغَبْ۰۰۸﴾ ’’تو اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! جب آپ (دن کے کاموں سے) فارغ ہوجائیں تو محنت کریں اور اپنے ربّ کی طرف (عبادت کے ذریعے) رغبت کریں۔‘‘ سو رمضان اسی تبتّل اور رغبت کا مہینہ ہے۔اسی تبتل اور رغبت کے حصول کے لیے آخری عشرے میں اعتکاف مشروع فرمایا۔ جس کا معنیٰ ہی یہ ہے: بند رہنا، رُکے رہنا،اور کسی چیز کو لازم پکڑ لینا۔ شرعی اصطلاحی میں کسی مسلمان کا عبادت کی نیت سے اپنے آپ کو مسجد میں روکےرکھنا۔اس اعتکاف میں ایک مسلمان کا عبادت میں اس قدر انہماک ہوتا ہے کہ اگر کوئی مُسلم فوت ہوجائے تو وہ اس کے جنازے میں شرکت بھی نہیں کرتا۔ اگر کوئی
[1] سورۃ المزمل: آیت 6 تا 8