کتاب: محدث شمارہ 356 - صفحہ 39
الکلام کفضل الله على خلقه)) [1] ’’اللہ رب العزّت فرماتے ہیں: جسے قرآن نے میرے ذکر او رمجھ سے مانگنے سے مصروف رکھا تو میں اُسے مانگنے والوں سے زیادہ عطا کردوں گااور اللہ کے کلام کی فضیلت دوسرے تمام کلاموں پر ایسے ہے جیسے اللہ کو اپنی مخلوقات پر فضیلت۔‘‘ حضرت جبریل علیہ السلام جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قرآن مجید کا معارضہ فرماتے ( جسے آج کل حفاظ ’دور‘ کہتے ہیں) وہ بھی رات کو ہوتا تھا۔ قیام اللیل بھی رات کا تھا، جس میں قرآن پڑھا جاتا تھا۔اور یہ سب یعنی قرآن مجید کا پڑھنا اور اس سے نصیحت حاصل کرنا، اس سے ذاتی طور پر تقربِِ الٰہی مقصود تھا۔ ذاتی تربیت و تزکیہ مراد تھا۔ اصلاً یہ پڑھنا تعلیم و تبلیغ کے لیے نہ تھا۔ اگر اصلاً یہ تبلیغ و تعلیم کے لیے ہوتا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا قرآنِ مجید جبرائیل امین علیہ السلام کوسنانے کی بجائے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ دور پر مبنی ہوتا کیونکہ ان کو تعلیم و تبلیغ کی اصل ضرورت تھی۔یوں بھی رات کی عبادت تنہائی کی عبادت ہے۔ خلوت کی عبادت یا محض بارگاہِ الٰہی میں حضوری کی عبادت او ریہ عبادت وہ ہے جس کے بارے میں فرمایا: ﴿ اِنَّاۤ اَنْزَلْنٰهُ فِيْ لَيْلَةٍ مُّبٰرَكَةٍ اِنَّا كُنَّا مُنْذِرِيْنَ۰۰۳﴾ [2] اور تربیت و تزکیہ تو محض اللہ کی بارگاہ میں حضوری سے ہی ممکن ہے۔ تبھی تو اللہ رب العزّت اپنے اُس نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جن کی زندگی کا لمحہ لمحہ اللہ کی رضا کے لیے ، تبلیغ رسالت کا حق ادا کرنے میں گزرتا۔ اُمت کی خیر خواہی، ادائے امانت کا احساس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہلکان کئے دیتا۔حتیٰ کہ اللہ رب العزت خود فرماتے: ﴿ فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ عَلٰۤى اٰثَارِهِمْ اِنْ لَّمْ يُؤْمِنُوْا بِهٰذَا الْحَدِيْثِ اَسَفًا۰۰۶﴾ [3] ’’شاید اس قرآن پر لوگوں کے نہ ایمان لانے پر افسوس کے مارے آپ اپنے آپ کو ہلاک کر ڈالیں گے۔‘‘ سورۃ طہٰ میں ارشاد ِباری ہے :﴿ طٰهٰۚ۰۰۱ مَاۤ اَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْقُرْاٰنَ لِتَشْقٰۤىۙ۰۰۲﴾ ’’طہٰ... ہم نے یہ قرآن آپ کو مصیبتوں میں ڈالنے کے لیے نازل نہیں کیا۔‘‘
[1] سنن ترمذی:2926 (حسن غریب) [2] سورۃ الدخان: آیت 3 [3] سورۃ الکہف: آیت 6