کتاب: محدث شمارہ 356 - صفحہ 22
وہ دم طلب کرنے والے نہیں ہیں کیونکہ اس سے توکل ختم ہوجاتاہے۔ ب) داغنا :دوسری صفت یہ ہے کہ وہ بیماری وغیرہ کی وجہ سے جسم کو داغنے والے نہیں ہیں۔ ج) بدفالی لینا:وہ بدفالی لینے والے نہیں ہیں۔نیک فالی لینا صحیح ہے جبکہ بدفالی لیناغلط ہے اوریہ شرک کے زمرے میں آجاتا ہے۔ د) توکّل : وعلىٰ ربهم یتوکّلون یعنی بلا حساب جنت میں جانے والے ہر معاملے میں صرف اپنے ربّ پر ہی توکل کرنےوالے ہیں۔اللہ سبحانہ و تعالیٰ پر توکل اور اعتماد کرناوغیرہ صفاتِ کسبی ہیں۔ اورایک روایت میں لا یَرقُون کےلفظ بھی ہیں، لیکن یہ ثابت نہیں ہیں بلکہ شاذ ہیں۔ 3. حمد ِباری تعالیٰ:اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ علیہ السلام سے فرمایا: ((إِنِّي بَاعِثٌ بَعْدكَ أُمَّةً، إِذا أَصَابَهُمْ مَا يُحِبُّونَ حَمِدُوا اللَّهَ وَشَكَرُوا، وَإِذا أَصَابَهُمْ مَا يَكْرَهُونَ احْتَسَبُوا وَصَبَرُوا، وَلَا حِلْمَ وَلَا عِلْمَ. قَالَ: يَا رَبِّ كَيْفَ يَكونُ ؟ قَالَ: أُعْطِيهِمْ مِنْ حِلْمِي وَعِلْمِي)).[1] ’’یقیناً میں آپ کے بعد ایک ایسی اُمت بھیجنے والا ہوں جب اُنہیں اُن کی پسندیدہ چیز حاصل ہوگی تو وہ اللہ تعالیٰ کی حمدبیان کریں گے اور اُس کاشکر ادا کریں گے اورجب کوئی ناپسندیدہ معاملہ پیش آئے تواللہ سے اجر کی اُمید کرتے ہوئے صبر کریں گے۔‘‘ اس صحیح حدیث میں اس اُمت کی فضیلت کا بیان ہے کہ اس کے اندر حمد اور شکر کا مادہ رکھا گیا ہے۔اللہ ربّ العزّت فرماتے ہیں: ﴿ اَلتَّآىِٕبُوْنَ الْعٰبِدُوْنَ الْحٰمِدُوْنَ﴾ [2] ’’اس اُمت کےلوگ توبہ کرنیوالے، اپنے ربّ کی عبادت اورحمد کرنیوالے ہیں۔‘‘ نعمت کے وقت اللہ تعالیٰ کی حمد کرنا اور مصیبت کے وقت صبر کرنا اس اُمت کی صفاتِ خیر میں سے ہیں۔ 4. وارثانِ انبیا:اس امت کے اندر ایسے علما بکثرت موجود ہیں جو انبیا کے صحیح وارث ہیں اوراس جانشینی کا حق بھی اداکررہے ہیں، البتہ ان کا درجہ انبیا سے کم ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا
[1] شعب الایمان ازبیہقی:4482 [2] سورۃ التوبۃ:112