کتاب: محدث شمارہ 356 - صفحہ 21
اس آیتِ کریمہ میں اُمتِ محمدیہ کےخیر اُمت ہونےکے تین اسباب بیان کئے گئے ہیں: الف) امر بالمعروف : امت کی خیریت کا پہلا سبب یہ ایک دوسرے کو نیکی کا حکم دیتے ہیں۔ ب) نہی عن المنکر: دوسرا سبب بُرائی سے روکنا ہے۔ یاد رہے کہ دعوت الیٰ اللہ صرف وعظ و نصیحت نہیں بلکہ نہی عن المنکر بھی اس دعوت میں شامل ہےاور یہ اس اُمت کا کام ہے۔ اس کی وضاحت اس حدیث سے بھی بخوبی ہوجاتی ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( من رأىٰ منكم منكرًا فليغيره بيده فإن لم يستطع فبلسانه وإن لم يستطع فبقلبه وذلك أضعف الإيمان)) [1] یہ حدیث بہت ہی مؤثر ہے کہ اگر طاقت ہےتو ہاتھ سے ورنہ زبان سے بُرائی کو مٹانے کی کوشش کی جائے۔ اگر نہیں تو کم از کم دل سے تو بُرا جانے اگر یہ بھی نہیں تو پھر ایسے آدمی کو ایمان کی فکر کرنی چاہیے۔ تو جو آدمی اس آیت کا مصداق بننا چاہتا ہے، اسے چاہیےکہ اس میں مذکور شرائط پر عمل کرے اور جو شخص امر بالمعروف اور نہی عن المنکر نہیں کرتا تو ایسا شخص خیر اُمت میں سے نہیں ہے۔ ج) ایمان باللہ:پہلی اُمتوں کی نسبت اس اُمت میں یہ صفت بہت زیادہ ہے اوریہ بھی اس اُمت میں موجود نمایاں خصوصیات میں سے ہے۔ 2. بلا حساب جنتی :اُمتِ محمدیہ کی یہ نمایاں فضیلت صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ اس اُمت کے 70ہزار افراد بلا حساب جنت میں داخل ہوں گے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’ میں نے دعا کی: اے اللہ! یہ 70 ہزار افراد کم ہیں، تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان میں سے ہرشخص کےساتھ 70،70 ہزار بلا حساب جنت میں داخل ہوں گے۔‘‘[2] صحابہ رضی اللہ عنہ نے عرض کی: اےاللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم یہ کون لوگ ہیں؟ کیا اس سےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مراد ہیں یا وہ لوگ جو اسلام میں پیدا ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کی چار صفات بیان کردیں کہ جن میں یہ پائی جائیں گی، وہ اُمت کے بہترین لوگ ہیں۔ الف) دم کرنے کا مطالبہ کرنا: بلا حساب جنت میں داخل ہونے والوں کی پہلی صفت یہ ہے کہ
[1] صحیح مسلم :70 [2] السلسلۃ الصحیحۃ:1484