کتاب: محدث شمارہ 356 - صفحہ 19
(( لو جُعل القرآن في إهاب ثم ألقي في النار ما احترق)) [1] ’’اگر قرآنِ کریم کو چمڑے میں ڈال کر آگ میں ڈال دیا جائے ، تو آگ اُس کو نہیں جلائے گی۔‘‘ اور اس کی تائید ایک دوسری حدیث سے بھی ہوتی ہے جس کے مطابق اللہ تعالیٰ قیامت کےدن علما سے گویا ہوں گے: (( إني لم أضع علمي فیکم لأعذّبکم))[2] ’’میں نے اپنا علم تمہیں اس لیے نہیں دیاتھا کہ تمہیں عذاب دوں۔ تم چلے جاؤ، میں نے تمہیں معاف کردیا۔‘‘ 4. پانچ نمازیں:صرف اسی اُمت کی خصوصیت ہے۔جیساکہ ایک صحیح حدیث میں ہے کہ عشا کی نماز پہلی اُمتوں میں نہیں تھی۔ 5. اعضاے وضو کی چمک: یہ بھی صرف اُمتِ محمدیہ کی ہی فضیلت و خصوصیت ہے کہ قیامت کے دن وضو کے اعضا یعنی چہرہ، ہاتھ اورپاؤں چمک رہے ہوں گے۔ 6. تیمّم :پانی نہ ہونے یا اس کے استعمال پر قادر نہ ہونے کی صورت میں تیمم کرلینا بھی اسی اُمت کی خصوصیت ہے۔ 7. مسجدًا وطهورًا: یہ بھی اس اُمت کی ہی خاص فضیلت ہے کہ ساری زمین ہی اس کے لئے جائے نماز اور طہور ہے، یعنی تیمم کرسکتے ہیں۔ ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے : (( جُعلتْ لي الأرضُ مسجداً وطهورًا)) [3] 8. عمل کم اور اَجر زیادہ : پہلی اُمتوں کی نسبت اس اُمت کے لوگوں کا وقت کم ہے ۔ عصر تا
[1] السلسلۃ الصحیحۃ:3562... قال الالبانی: ہذا اسناد حسن [2] اگرچہ اس حدیث کو شیخ البانی نے سلسلہ ضعیفہ:868 میں اورعلامہ ابواشبال شاغف نے جامع البیان میں ضعیف قرار دیا ہے، لیکن اس کا صحیح ہونا راجح ہے، کیونکہ اس کی ایک دوسری سندابوبکر محمد بن ہارون الرویانی (متوفی307ھ )کی مسندالرویانی: رقم 528 میں بھی ہے اور وہ حسن صحیح کے درجے میں ہے، چونکہ یہ سند ان علما کی نظر سے نہیں گزری، اس لیےوہ معذور ہیں۔ [3] صحیح بخاری:419