کتاب: محدث شمارہ 356 - صفحہ 16
تعالیٰ اس پر ایسے ایسے علوم کھول دیتے ہیں جن کا کبھی کسی کے دل میں خیال بھی نہیں آیا۔ یہ باتیں کتاب و سنت سے ماخوذ ہیں اوران کےدلائل بھی مختصراً بیان ہوئے ہیں۔
خلاصۂ کلام یہ ہوا کہ ظاہری علم حاصل کرنا آسان ہے اور باطنی علم یعنی شریعت کی حکمتیں معلوم کرنا۔ پس اصل علم تو یہی ہے جس کے بارے میں اللہ سبحانہ فرماتے ہیں:
﴿وَ مَا كَانَ الْمُؤْمِنُوْنَ لِيَنْفِرُوْا كَآفَّةً1 فَلَوْ لَا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِّنْهُمْ طَآىِٕفَةٌ لِّيَتَفَقَّهُوْا فِي الدِّيْنِ وَ لِيُنْذِرُوْا قَوْمَهُمْ اِذَا رَجَعُوْۤا اِلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُوْنَ۰۰۱۲۲﴾ [1]
’’سو ایسا کیوں نہ کیا جائے کہ ان کی ہر بڑی جماعت میں سے ایک چھوٹی جماعت جایا کرے تاکہ وہ دین کی سمجھ بوجھ حاصل کریں۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے یہاں یہ نہیں کہا کہ یہ تعلم فی الدین ہے بلکہ فرمایا کہ یہ تفقہ فی الدین ہے اوریہ علم ضروری ہے۔
تأثر بآیات اللہ
اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے جس شخص کو علم دیا ہو تو اس کے علم کی نشانی یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی آیات اور احادیثِ نبویہ کی تاثیر قبول کرتا ہے اورصحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں یہ خوبی موجود تھی۔ سیدہ اسماء بنت ابوبکر رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں کہ
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دینے کھڑے ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبر کے اس فتنے کا ذکر کیا جس میں آدمی مبتلا ہوتا ہے۔ تو حدیث مبارکہ میں آتا ہے کہ ضجّ المسلمون ضجّة [2]’’مسلمانوں نے انتہائی زور سے چیخ ماری۔‘‘
سلف میں تأثر بآیات اللہ کی اوربھی کئی مثالیں موجود ہیں اور اگر ہم صحیح علم والے ہیں تو ہم پر قرآن و حدیث نمایاں ہونا اورہمارا ظاہر و باطن اس سے متاثر ہونا چاہیے اوریہ بھی یاد رہنا چاہیے کہ علم رعایت اور علم اسرارِ شریعت اوراس کی حکمتوں کے جاننے کے بعد ہی انسان پر یہ کیفیت طاری ہوتی ہے۔
[1] سورة التوبۃ:122
[2] صحیح بخاری:1284