کتاب: محدث شمارہ 356 - صفحہ 14
﴿وَ رَاوَدَتْهُ الَّتِيْ هُوَ فِيْ بَيْتِهَا عَنْ نَّفْسِهٖ وَ غَلَّقَتِ الْاَبْوَابَ وَ قَالَتْ هَيْتَ لَكَ1 قَالَ مَعَاذَ اللّٰهِ اِنَّهٗ رَبِّيْۤ اَحْسَنَ مَثْوَايَ1 اِنَّهٗ لَا يُفْلِحُ الظّٰلِمُوْنَ۰۰۲۳﴾ [1]
’’اس عورت نے جس کے گھر میں یوسف تھے، یوسف کو اس کے نفس کے بارےبہلانا پھسلانا شروع کردیا اور دروازے بند کرکے کہنےلگی: آجاؤ، یوسف نے کہا: اللہ کی پناہ وہ میرا ربّ ہے۔ اس نے مجھے اچھی طرح رکھا ہے، بے انصافی کرنے والوں کا بھلا نہیں ہوتا۔‘‘
آدمی جوان ہے خواہش بھی ہے، بیوی نہیں ہے۔ خود مسافر اورغلام ہیں، بُرائی کی دعوت دینے والی عورت جوان، حسن و جمال اور منصب والی ہے۔ الغرض بُرائی کے تمام اسباب و دواعی موجود ہیں، لیکن اللہ کی راہ پر چلنے والے کے دل میں اللہ کی توجہ اس قدر غالب ہے کہ اُنہوں نے اس غلط کام کو جوتے کی نوک پر ٹھکرا دیا۔پس یہی احسان ہے۔
درجاتِ احسان: احسان کے دو درجے ہیں:
مشکوٰۃ المصابیح کی ایک حدیث میں احسان کے یہ دونوں درجے بیان ہوئے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے احسان کے بارے میں سوال کیا جاتا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
(( أن تعبد الله كأنك تراه))
احسان یہ کہ ’’آپ اللہ تعالیٰ کی بندگی ایسے کریں جیسے آپ اللہ کو دیکھ رہے ہیں۔‘‘
اور احسان کا دوسرا درجہ یہ ہے کہ آپ کے دل میں یہ بات ہو کہ اللہ تعالیٰ مجھے دیکھ رہے ہیں: (( فإن لم تكن تراه فإنه يراك)) [2]
3. حرام سے اجتناب: اسرار شریعت کے حصول کے لیے تیسری چیز ’حرام سے اجتناب‘ ہے۔ اگر کوئی طالب علم حرام کھاتا ہے تو اس کے علم میں نور نہیں ہے۔ اس کا دل جو علم کا مہبط ہے،خراب ہوجاتا ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کاارشادِگرامی ہے کہ
(( کل لحم نَبَت من السُّحت فالنار أولىٰ به)) [3]
[1] سورة یوسف :23
[2] صحیح بخاری: 48
[3] السلسلۃ الصحیحۃ :2609