کتاب: محدث شمارہ 356 - صفحہ 109
غروب ہونے سے جاہل تھے، نہ كہ شرعى حكم سے، لیكن اُن كا یہ گمان نہیں تھا كہ ابھى دن ہے، اور نہ ہى نبى كریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُنہیں قضاكرنے كا حكم دیا، اور اگر قضا واجب ہوتى تو یہ اللہ كى شریعت سے ہوتى اور پھر یہ محفوظ بھى ہوتى،لہٰذا جب یہ محفوظ نہیں اور نہ ہى نبى كریم صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہے، تو اصل برى الذمہ ہے، اور قضا نہیں ہے۔‘‘ [1] اور شیخ الاسلام رحمۃاللہ علیہ كہتے ہیں: ’’یہ قضا واجب نہ ہونے كى دلیل ہے، كیونكہ نبى كریم صلی اللہ علیہ وسلم اگر اُنہیں قضا كا حكم دیتے تو یہ بھى عام ہوتا جیسا كہ ان كا افطارى كرنا نقل ہوا ہے، اور جب یہ منقول نہیں تو یہ اس كى دلیل ہے كہ نبى كریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُنہیں اس كا حكم نہیں دیا۔ اور اگر یہ كہا جائے كہ بلكہ ہشام بن عروہ رضی اللہ عنہ كو كہا بھى گیا کہ انہیں قضا كا حكم دیا گیا تھا؟ تو ان كا كہنا ہےکہ قضا ضرورى ہے، یہ ہشام نے اپنى رائے سے كہا ہے، اور حدیث میں یہ مروى نہیں۔اور یہ اس كى بھى دلیل ہے كہ ان كے پاس اس كا علم نہیں تھا۔معمر رضی اللہ عنہ نے ان سے روایت كیا ہے كہ میں نے ہشام كو یہ كہتے ہوئے سنا: مجھے علم نہیں كہ انہوں نے قضا كی یا نہیں ؟ امام بخارى رحمۃاللہ علیہ نے ان سے یہ بیان كیا ہے، اور ہشام رضی اللہ عنہ نے اپنے والد عروہ سے بیان كیا ہے كہ اُنہیں قضاكا حكم نہیں دیا گیا تھا، اور عروہ كو اپنے بیٹے سے زیادہ علم ہے۔‘‘ [2] اور اگر آپ احتیاط كرتے ہوئے اِس كے بدلے ایك دن كى قضا میں روزہ ركھ لیں تو یہ بہتر ہے، اور الحمد للہ ایك دن كى قضا كرنا آسان ہے۔ اور جو كچھ ہوا، اس سے آپ پر كوئى گناہ نہیں۔واللہ اعلم
[1] الشرح الممتع: 6/ 402 [2] مجموع فتاویٰ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ :25/ 231