کتاب: محدث شمارہ 356 - صفحہ 108
چاہیے، اور جمہور اہل علم كے ہاں اس پر قضا ہے، اور اگر اس نے اجتہاد اور غروب شمس كے متعلق پورى كوشش كے بعد افطارى كى ہو تو اس پر كوئى حرج نہیں۔ جس طرح كہ اگر وہ تیس شعبان كو صبح اُٹھے اور دن میں اسے علم ہوا كہ آج تو رمضان كى یكم ہے، تو اسے باقى دن كچھ نہیں كھانا پینا چاہیے، اور جمہور كے ہاں وہ اس دن كى قضا كرے گا، اور اس پر كوئى گناہ نہیں، كیونكہ جب اس نے كھایا پیا تھا تو اسے رمضان كا علم نہیں تھا، لہٰذا جہالت نے اس سے گناہ كو ساقط كر دیا ہے، لیكن قضا ساقط نہیں ہو گى، اُسے اس دن كى قضا میں روزہ ركھنا ہو گا۔‘‘ [1] تاہم بعض اہل علم كہتے ہیں كہ روزہ صحیح ہے، اور اس پر قضالازم نہیں۔مجاہد اور حسن رحمۃاللہ علیہم سے یہى مروى ہے، اور اسحٰق اور امام احمد رحمۃاللہ علیہم سے ایك روایت بھى یہى ہے، اور مزنى اور ابن خزیمہ رحمۃاللہ علیہم كا بھى یہى قول ہے اور شیخ الاسلام رحمۃاللہ علیہ نے بھى اسے ہى اختیار كیا ہے، اور شیخ ابن عثیمین رحمۃاللہ علیہ نے بھى اسے ہى راجح قرار دیا ہے۔[2] ان کا استدلال بخارى شریف كى مندرجہ ذیل روایت سے ہے: ہشام بن عروہ رضی اللہ عنہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے اور وہ اسما بنتِ ابى بكرسے بیان كرتے ہیں كہ اسما بنت ابى بكرنے كہا: ہم نے نبى كریم صلی اللہ علیہ وسلم كے دور میں ابرآلود موسم میں روزہ افطار كر لیا تو بعد میں سورج نكل آیا۔ ہشام سے پوچھا گیا کہ كیا اُنہیں قضا كرنے كا حكم دیاجائے؟ تو وہ كہنے لگے:قضا ضرورى ہے، اور معمر كہتے ہیں کہ میں نے ہشام كو یہ كہتے ہوئے سنا: مجھے نہیں علم كہ اُنہوں نے قضاكى یا نہیں۔اور ہشام كا یہ كہنا كہ قضا ضرورى ہے، ایسا اُنہوں نے اپنى سمجھ كے مطابق كہا ہے، اُنہوں نے یہ نہیں كہا كہ نبى كریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں قضا كرنے كا حكم دیا ہے۔ اور اسى لیے حافظ ابن حجر كہتے ہیں: ’’اور اسماء رضی اللہ عنہا كى حدیث میں نہ تو قضا كا ثبوت ہے اور نہ ہى اس كى نفى پائى جاتى ہے۔‘‘ شیخ محمد بن عثیمین’الشرح الممتع‘ میں كہتے ہیں: ’’اُنہوں نے دن میں اس بنا پر افطارى كرلى كہ سورج غروب ہو چكا ہے۔ وہ سورج
[1] مجموع فتاویٰ ابن باز: 15/ 288 [2] فتح الباری: 4/ 200؛ مجموع الفتاویٰ از شیخ الاسلام بن تیمیہ: 25/ 231