کتاب: محدث شمارہ 356 - صفحہ 107
وقت سے پہلے روزہ افطار کرنا سوال: مؤذّن نے وقت سے سات منٹ قبل اذان كہہ دى تو لوگوں نے روزہ افطار كرلیا کہ محلّے كى مسجد كی اذان سن كر ہم نے روزہ افطار كرلیا، اور سات منٹ گزرنے كے بعد ہم نے ایك دوسرى مسجد كے مؤذن كى اذان سنى۔ جب ہم نے محلے كے مؤذن سے دریافت كیا تو اس نے ہمیں بتایا كہ اس سے غلطى ہو گئى كہ اذان كا وقت ہو گیا ہے، اب اس محلہ كے لوگوں پر كیا لازم آتا ہے؟ جواب: جس نے غروبِ شمس كا گمان كرتے ہوئے روزہ افطار كر لیا، اور پھر اسے علم ہوا كہ ابھى سورج غروب نہیں ہوا تو جمہور علماے كرام كے ہاں اس پر قضا ہے۔ ابن قدامہ رحمۃ اللہ علیہ’المغنى‘ میں لكھتے ہیں: ’’فقہا وغیرہ میں سے اكثر اہل علم كا قول یہى ہے۔‘‘[1] سعودی عرب کی دائمی فتوىٰ كمیٹى سے یہ سوال كیا گیا کہ ایك شخص نے اپنى بچیوں كے كہنے پر روزہ افطار كر لیا اور جب نماز كے لیے نكلا تو مؤذن مغرب كى اذان دے رہا تھا؟ تو كمیٹى كا جواب تھا: ’’جب آپ نے افطارى واقعتاً غروبِِ آفتاب كے بعد كى ہے تو آپ پر كوئى قضا نہیں، اور اگر آپ نے یہ تحقیق كى یا آپ كے ظن پر غالب ہو گیا، یا آپ كو شك ہے كہ آپ نے غروبِ شمس سے قبل افطارى كرلى تو آپ اور جس نے بھى آپ كے ساتھ افطارى كى ،اس پر قضا ہے۔ كیونكہ اصل یہ ہے كہ دن باقى تھا، اور اس اصل سے بغیر كسى شرعى ناقل یعنى غروبِ شمس كے تبدیلی نہیں ہو سكتی۔‘‘ [2] اور شیخ ابن باز رحمۃ اللہ علیہ سے سوال كیا گیا کہ بعض لوگوں نے افطارى كر لى اور بعد میں اُنہیں علم ہوا كہ ابھى تو سورج غروب نہیں ہوا تو اس كا حكم كیا ہے؟ شیخ كا جواب تھا: ’’جس سے ایسا ہو جائے تو اسے غروبِ آفتاب تك كھانے پینے وغیرہ سے رك جانا
[1] المغنی از ابن قدامہ مقدسی: 4/ 389 [2] فتاویٰ اللجنة الدائمة للبحوث العلمیة والإفتاء: 10/ 288