کتاب: محدث شمارہ 356 - صفحہ 103
دارالافتاء شیخ محمد بن صالح المنجد انتخاب: نعیم الرحمٰن ناصف روزہ و زکوٰۃ کے بارے اہم فتاویٰ كیامالِ تجارت كى زكاۃ قیمت خرید پر ہو گى یا قیمت فروخت پر ؟ سوال:تجارتى سامان كى زكاۃ كس طرح ادا ہو گى؟ آیا وہ قیمتِ خرید كے مطابق ہو گى یا قیمت فروخت كے مطابق ؟ جواب:تجارتى سامان كى زكاۃ كا حساب اس طرح ہو گا كہ سال مكمل ہونے پر سامان كى ماركیٹ كے مطابق قیمت لگائى جائے گى۔(اور غالبًا دوكان میں وہى فروخت كى قیمت ہے) چاہے یہ قیمتِ خرید كے برابر ہو یا اس سے كم یا زیادہ اور پھر اس سے اڑھائى فیصد زكاۃ ادا كی جائے گی۔[1] اور یہى كمالِ عدل ہے، كیونكہ سال مكمل ہونے كے وقت اس كى قیمت خریدارى كى قیمت سے مختلف ہو سكتى ہے یا كم یا زیادہ۔ پھر اگر تاجر تھوك یعنى ہول سیل كا كاروبار كرتا ہو تو وہ ہول سیل كى قیمت لگائے گا، اور اگر وہ پرچون كا كاروبار كرتا ہے تو وہ پرچون كى قیمت لگائے گا۔[2] اور اگر وہ ہول سیل اور پرچون دونوں كاروبار اكٹھا كرتا ہے تو وہ قیمت متعین کرنے میں محنت سے کام لے اور ہول سیل فروخت كرنے والے مال كا اندازہ لگاکر اس كى قیمت ہول سیل ریٹ كے مطابق لگائےاور جو پرچون فروخت كرتا ہےاس كى قیمت پرچون ریٹ كے مطابق لگائے اور اس كى زكاۃ نكالے۔ اور اگر وہ اس حالت میں احتیاط كرتے ہوئے اتنى زكاۃ نكالے جو یقینى واجب كردہ زكاۃ سے زیادہ ہو تو یہ افضل ہے، كیونكہ ہو سكتا ہے وہ یہ اندازہ لگائے كہ وہ یہ سامان ہول سیل فروخت كرے گا اور پھر اسے وہ پرچون فروخت كر دے۔
[1] رسالة في الزکاة از شیخ ابن باز: (11) رسالة زکاة العقار از شیخ بکر ابو زید:(8) [2] الشرح الممتع از شیخ محمد بن عثیمین: 6/ 146