کتاب: محدث شمارہ 356 - صفحہ 102
2. وہ لوگ جنہوں نےقبول نہیں کی اورچُپ چاپ اپنی ڈگر پر چلتے رہے۔ 3. اور تیسری قسم ان لوگوں کی ہے جنہوں نے نہ صرف دعوت قبول نہیں کی بلکہ وہ داعی اور دعوت کے دشمن بن گئے اور آخر دم تک دعوت حق کا چراغ بجھانے کی مذموم کوشش کرتے رہے۔ ہر داعی حق کی طرح شیخ محمد بن عبدالوہاب پر بھی یہی ماجرا گزرا۔ انہوں نے کوئی نئی چیز پیش نہیں کی۔ اُن کی ساری دعوت، تمنا اور تڑپ صرف یہ تھی کہ مسلمان فضول باتیں ترک کردیں۔ قرآن و سنت کی طرف پلٹ آئیں اور سچّے عملی مسلمان بن جائیں۔ بنابریں بارہویں صدی ہجری کی اتنی سچی، اتنی پاکیزہ اور اس قدر دل رُبا انقلابی دعوت کو دوسری صدی ہجری کی خارجی وہابیت[1] سے منسوب کرنا حق و صداقت کی آخری توہین اور عہدِ جدید کا سب سے بڑا فراڈ ہے۔ فرنگی سامراج، ترکی اورمصری مدتوں شیخ رحمۃ اللہ علیہ پر رکیک حملےکرتے رہے۔ ان کی کمک پر مامور یا مجبور علما مزاروں کی آمدنی سے مالا مال پیر فقیر، ان کے مرید اور متوسلین بھی کم و بیش ڈھائی سو سال سےالزام و دشنام کے تیر برساتے آرہے ہیں۔ اگر ایک انسان کا قاتل پوری انسانیت کا قاتل ہے تو شیخ محمد کی دعوتِ حق پر جھوٹے الزامات لگانے اورسچائی کا خون کرنے والوں کو کیاکہاجائے گا؟ ؎ خدا تجھے کسی طوفان سے آشنا کردے تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں! [ماخوذ از کتاب: ’تاریخ وہابیت؛ حقائق کے آئینے میں‘ ، طبع دارالسلام، لاہور]
[1] دوسری صدی ہجر ی میں خوارج كے اباضی فرقے کی ایک تحریک جو خارجی فرقے کے ایک شخص عبد الوہاب بن عبد الرحمٰن بن رستم سے منسوب تھی، اس تحریک کے بارے میں مغربِ اقصےٰ اور اندلس کے بعض علماء کے شدید فتاوٰی بھی شمالی افریقہ میں پائے جاتے ہیں۔یہ ایک گمراہ فرقہ تھا جس سے محمد بن عبد الوہاب کی تحریک کو متہم کرکےبدنام کرنے کی کوشش کی گئی۔اس کی وضاحت اور مزید تفصیلات کے لئے محولہ بالا کتاب کا صفحہ 18، اور 19 ملاحظہ ہو۔ ح م