کتاب: محدث شمارہ 356 - صفحہ 101
پورے ملک کی فرمانروائی عطا کردی۔ اور سارے جزیرہ نمائے عرب سے شرک و بدعت اور مکروہات و خرافات کا خاتمہ ہوگیا۔ آج وہاں توحید کے زبردست حسنات و برکات کا کھلے عام مشاہدہ ہورہا ہے۔ الحمدللہ! دنیابھر میں کہیں اتنا امن و استحکام اورعدل و انصاف موجود نہیں جتنا سعودی عرب میں ہے۔ یہ سب کچھ شرک و بدعت کے خاتمے اور دین قیم کے نفاذ کا فیضان ہے۔ کسی دعوے یا دعوت کی سچائی پرکھنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ اس کے داعی کا عمل دیکھا جائے اور یہ جانچا جائے کہ وہ دنیاوی شان و شوکت ، مال و زر،اونچے عہدے اور نفسانی مطلوبات و مرغوبات کا دل دادہ تو نہیں ہے؟ اگر وہ ان چیزوں سے دور ہے تو یقیناً سچا ہے۔ اس کسوٹی پر شیخ محمد کو پرکھا جائے تو وہ کامل معنوں میں سچے، کھرے، مخلص، بےلوث اورمثالی مسلمان نظر آتے ہیں۔ بے داغ صداقت کی وجہ سے تمام اہل نجد شیخ محمد کے فدائی بن گئے تھے اورشیخ کےکردار کی بلندی اور دعوت کی سچائی کی بدولت سارا نجد شیخ کی زندگی ہی میں خاندانِ سعود کے زیر نگیں آگیاتھا۔ امیر محمد بن سعود اور ان کے جانشین امیر عبدالعزیز شیخ کی راہوں میں آنکھیں بچھاتے تھے اور اُن سے مشورہ کیے بغیر کوئی کام نہیں کرتے تھے۔ مگر شیخ نے اپنے اس عالی رتبے سے کبھی کسی قسم کا کوئی فائدہ نہیں اُٹھایا۔ وہ دعوت الیٰ اللہ ہی کے فروغ کی دھن میں سرگرمِ عمل رہے۔ کسی اونچے منصب، عیش و راحت یا دنیاوی مال و دولت کی طرف نگاہ اٹھا کر بھی نہیں دیکھا۔ اُنہوں نے اپنی اولاد کو بھی اعلیٰ درجے کی دینی تعلیم و تربیت دی اوردنیاوی جاہ و حشم اور مال و زر کی طمع سے دور رکھا۔ اللہ کا کتنا بڑا کرم ہے کہ آج بھی ان کی اولاد و احفاد سعودی عرب میں عظیم دینی خدمات انجام دے رہی ہے اورکسی دنیاوی منصب یا منفعت سے کوئی تعلق نہیں رکھتی۔ شیخ کی اولاد سعودی عرب میں’آل شیخ‘ کے نام سے معروف ہے اور انتہائی عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ دنیا میں جب بھی دعوتِ حق کا ظہور ہواہے، اس کا واسطہ تین طرح کے لوگوں سے پڑا ہے: 1. وہ لوگ جنہوں نےد عوت قبول کرلی۔