کتاب: محدث شمارہ 356 - صفحہ 100
گھر گھر پھیل گئی ۔ پہلے کوئی شیخ کی بات پر توجہ نہیں دیتاتھا، اب سبھی شیخ کی طرف متوجہ ہوگئے اور ہر جگہ انہی کی تحریک کاچرچا ہونے لگا۔ ہوتے ہوتے یہ خبر حکامِ بالا کو پہنچی۔احساء و قطیف کا حاکم اعلیٰ سلیمان بن محمد عزیز حمیدی بدمعاش اور عیاش آدمی تھا۔ اِسے یہ خبر سن کر بڑاغصہ آیا۔ اس نے امیر عیینہ عثمان بن معمر کو فوراً لکھا : مجھے معلوم ہوا ہے کہ تمہارے ہاں ایک مولوی شرعی فیصلے لاگو کررہا ہے ۔ اسے فوراً قتل کردو، ورنہ ہم تمہیں جو سالانہ بارہ سو دینار اور دیگر امداد بھیجتے ہیں، وہ بند کردی جائے گی۔ عثمان بن معمر یہ حکم نامہ پاکر سراسیمہ ہوگیا۔ اسے اپنے منصب اوردرہم و دینار چھن جانے کا خطرہ لاحق ہوا تو اس نے شیخ محمد کو عیینہ سے باہر نکل جانے کا حکم دے دیا۔ جو لوگ اللہ رب العزّت کو اپنا دل دے دیتے ہیں، ان کےلیے اپنے وطن کے مالوفات بھی کوئی کشش نہیں رکھتے۔ وہ جہاں جاتے ہیں، نیکی کے بیج بوتے ہیں اور اعمالِ صالحہ کی فصلیں تیار کرنے لگتے ہیں۔ شیخ نےجلا وطنی کا حکم صبر اور سکون سے سنا۔ وہ بڑی بے بسی اور تہی دامنی کی حالت میں عیینہ سےنکلے۔ درعیہ کا قصد کیا۔ بے آب و گیاہ صحرا کی وسعتیں تھیں، شدید گرمی تھی، کڑی دھوپ پڑ رہی تھی اور شیخ رحمۃ اللہ علیہ تنہا بہ تقدیر پیدل چلے جارہے تھے ؎ لیے جاتی ہے کہیں ایک توقع غالب جادہ رہ کشش کاف کرم ہے ہم کو پیچھے پیچھے عثمان بن معمر کا فرستادہ سپاہی فرید طفیری گھوڑے پرسوار چلا آتاتھا۔ اس نے ویرانے میں شیخ کو قتل کرنےکے لیےہاتھ اُٹھانا چاہا مگر اللہ کی ایسی زبردست نصرت آئی کہ وہ اس مذموم ارادے سے خود ہی ڈر گیا اور الٹے پاؤں عیینہ بھاگ گیا۔ شیخ محمد بن عبدالوہاب رحمۃ اللہ علیہ درعیہ پہنچے ۔ امیر درعیہ محمد بن سعود اور ان کےبھائیوں نے شیخ کا پرتپاک خیر مقدم کیا۔ موصوف نے محمد بن سعود کو بھی دعوتِ حق کی ترغیب دی جو اس نیک بخت انسان نے قبول کرلی۔ یوں شیخ محمد بن عبدالوہاب اورخاندانِ سعود میں باطل عقائد کے خاتمے اوراللہ کے دین کے نفاذ کے لیے وَتَعَاوَنُوا عَلیٰ الْبِرِّ وَالتَّقْوَی کا معاہدہ طے پاگیا۔ اس کی برکت سے وہ عظیم الشان انقلاب ظہور میں آیا کہ خاندانِ سعود کو اللہ تعالیٰ نے