کتاب: محدث شمارہ 356 - صفحہ 10
1) علم روایت یعنی کتاب میں حدیث کو پڑھنا پھر اسے آگے نقل اوربیان کردینا اور دوسرے لوگوں کو پڑھانا۔ یہ علم آسان ہے،اتنا مشکل نہیں ہے۔ اکثر علما یہ کام کرتے ہیں، البتہ پورا کمال صرف اسی میں نہیں ہے اور ایک صحیح حدیث میں بعد والے زمانے کا نقشہ یوں کھینچا گیا ہے: إِنَّكُمْ أصبحتُم في زمانٍ كثيرٍ فقهاؤُه، قليلٍ خطباؤُه، قليلٍ سُؤّاله، كثيرٍ معطوهُ، العملُ فيه خيرٌ من العِلمِ. وسيأتي زمانٌ قليلٌ فقهاؤُه، كثيرٌ خطباؤُه، كثيرٌ سُؤّاله، قليلٌ مُعطوهُ،العلمُ فيه خيرٌمن العمل [1] ’’آپ ایسے زمانے میں موجود ہیں جس میں دین کی بصیرت رکھنے والے زیادہ، خطابت کا جادو جگانے والے کم، مانگنے والے کم اور دینے والے زیادہ ہیں۔ اس زمانے میں علم پر عمل کو مقدم سمجھا جاتاہے۔عنقریب اس کے برعکس زمانہ آنےوالا ہے، جس میں لوگ عمل بجالانے پر محض جان لینے کو ترجیح دیں گے۔‘‘ 2) علم درایت علم کی دوسری قسم کو’علم درایت‘ کہتے ہیں یعنی کتاب و سنت کے معانی کوسمجھنا اور دوسرےلوگوں کوسمجھانا،مسائل کی صحیح تحقیق کرنا۔ یہ علم اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا فضل ہے، جسے چاہتے ہیں عطا کردیتے ہیں، جسے چاہتے ہیں عطا کردیتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے: «من یرد الله به خیرا یفقهه في الدین» [2] یعنی اللہ تبارک و تعالیٰ جس شخص کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرتے ہیں ،اسے علم درایت، فقہ الحدیث کا علم اور کتاب و سنت کی سمجھ دے دیتے ہیں۔الحمدللہ یہ علم پہلے علما کے پاس بھی بہت زیادہ تھا اور آج بھی ہے۔
[1] السلسلۃ الصحیحۃ: 3189 [2] صحیح بخاری :69