کتاب: محدث شمارہ 355 - صفحہ 99
نہیں۔ پڑھائی بھی چلتی رہتی اور اللہ بھلا کرے باجی (اہلیہ عبدالرشید صاحب) کا وہ خدمت گزار جنتی خاتون (ان شاء اللہ) چپ چاپ مہمان نوازی میں لگی رہتیں۔ حافظ صاحب آرڈر کرتے رہتے او روہ پورے کرتی رہتیں۔ ان آخری دنوں میں جب ہم حافظ صاحب سے بخاری پڑھنے جارہے تھے، ایک دن چائے پی ،مٹھائی کھائی، سبق پڑھا اور اُٹھنےلگے تو حافظ صاحب کہنےلگے جاؤ اندر جاکر کچھ کھا پی لو، میں نے کہا: کھالیاہے، حکماً بولے :جاؤ نا۔اندر جاکر باجی کے پاس آٹھ دس منٹ بیٹھے، رات کے ساڑھے گیارہ بج رہے تھے۔ پھر ابوعبدالرب کو کال دی کہ چلیں ، وہ نکل آئے۔ کوئی پانچ سات منٹ دور گئے ہوں گے کہ بہن مصباح کے فون پر حافظ صاحب نے کہا : کہاں پہنچے ہو واپس آؤ۔ تمہارے لیے کچھ رکھا ہوا ہے میں نےکہا :اتنی رات ہوگئی ہے ، گھر پہنچتے پہنچتے بارہ سے اوپر ٹائم ہوجائے گا۔ ابوعبدالرب نے بہت ہی خوبصورت بات کہی کہنے لگے:بچوں کی طرح اپنی مرضی سے ہر چیز کھا ئیں گے، جب والدین کہیں تو ’’نہیں، پیٹ بھرا ہوا ہے۔‘‘ واپس چلو! واپس گئے تو حافظ صاحب دروازے میں دو پلیٹیں لئے کھڑے تھے،یہ لو گھر جاکے کھا لینا۔ مرغی کے شوربے میں شاندار ثرید اور بوٹیاں تھیں گھر آکے کھایا اوردعا دی۔ کھانے کے بارے میں کہا کرتے: کھانا لذیذ ہو تو چبا چبا کر مزے لے کر کھانا چاہیے، یہ کیا حماقت ہے کہ کھانا مزے کا تھا میں نے جلد جلدی کھا لیا۔دیکھو ایک ہزار کا کھانا ہو یا دس روپے کا مزہ تو صرف دو انچ کی زبان کو ہے۔ بعد میں تو سب برابر ہے۔ بلکہ ہوسکتاہے کہ دس روپے والا کھانا ایک ہزار والےسے صحت کے اعتبار سے بہتر ہو۔ اس لیے دو انچ کی زبان کو مزہ تو لینے دو۔ انتہائی معاملہ فہم، زیرک،حاضر جواب اورحساس تھے۔مخاطب کے لہجے کو پہچانتے، چلنے والے کی چال سمجھتے، نظریں پہنچانتے، بات کا جواب دینے سے پہلے مخاطب کا دماغ درست کردیتے کہ اس سوال سے تمہارا کیا مقصد ؟ کہاں استعمال کرنا چاہتے ہو؟ او رمخاطب عاجز ہوکر اپنےموقف سے رجوع کرتا۔ گفتگو کے دوران کسی نقطہ نظر سےاختلاف کرنا ہوتا تو دلائل کا انبار لگا دیتے حتیٰ کہ انسان سمجھتا میرے موقف میں غلطی ہے اور اتنا گناہگار ہو رہا ہوں تو دوسری طرف چل پڑتے۔ انسان حیران ہوکر سوچتا کہ یہ جو ابھی قیاس کے ردّ میں علم وفصاحت اور بلاغت و فقہ کے دریا بہا رہے تھے، شاید ان سے بڑا قیاس کے حق میں دلائل دینے والا کوئی ہے ہی نہیں۔ دونوں انتہاؤں تک پہنچانے کےبعد واپس آتے اورٹھہراؤ کے ساتھ ،آہستہ آہستہ شریعت کے قریب ترین موقف تک پہنچاتے۔ وہ آٹھ گھنٹے کی گفتگو ہم دو دن تک دہراتے او ر