کتاب: محدث شمارہ 355 - صفحہ 98
ان دنوں لاہور ریڈیو پر خواتین کے لیے ایک دینی پروگرام’متنجن‘ کے نام سے چلتا تھا پانچ منٹ کا لیکچر ہوتا تھا۔ میں اس پروگرام کی میزبان تھی اور علماء سے اس کی شرعی حیثیت بھی پوچھ رہی تھی؟ الإثم ماحاك في صدرك کے مصداق اگرچہ بہت سے مفتیانِ کرام اس کے حق میں بے شمار دلائل رکھتے او رمجھے ملتے بھی رہتے مگر میرے دل کی کھٹک نہ گئی تو حافظ صاحب سے پوچھا۔ اُنہوں نے جو کہا مجھے کبھی نہیں بھولا اور میں نے اس کا تذکرہ اپنی کتاب ’ٹی وی کے نقصانات‘میں بھی کیا ہے۔
کہنے لگے: الیکٹرانک میڈیا سارا ہی شیطان کا کاروبار ہے۔ جیسے ایک گھاگھ بیوپاری اپنی دکان میں ہر چیز رکھتاہے، (ڈیپارٹمنٹل سٹور یا ایک چھت تلے ہر چیز ملنے والی دکانیں جن کا آج کل بہت رجحان ہے) اس طرح شیطان اپنی دکان میں ہر طرح کے بندوں کو پھانسنے کا سامان رکھتا ہے۔ تجوید کے طالب علموں کے لیے قرا حضرات کا لیکچر، مذہبی رجحانات رکھنے والوں کے لیے علما، سائنس کے طالب علموں کے لیے سائنس........ وغیرہ وغیرہ۔ تاکہ یہاں سے بھی کوئی خالی ہاتھ نہ جاسکے تو یہاں جو بھی کام کرتا ہے اخلاص نیت کے باوجود وہ یک گونہ شیطان کی دکان بڑھاتا ہے۔ الحمدللہ جواب مجھے کلک کرگیا اور میں نے اس کے بعد یہ پروگرام چھوڑ دیا۔
حافظ صاحب بہت عمدہ ذوق رکھتے تھے، انتہائی ذکی الحس تھے۔ خوشبو سونگھ کر تبصرہ کردیتے کہ سالن اچھا بنا ہے ، پکنے میں کمی ہے، مرچ کرا ری ہے وغیرہ وغیرہ۔کوشش کرتے کہ ہر اعتبار سے شریعت کے دائرے میں رہیں، کھانے پینے میں نقص نہ نکالیں مگر طلاقت لسانی کی وجہ سے منہ سے بات نکل جاتی اور بعد میں معذرت کرتے رہتے۔
عمدہ کھانے کھلاتے، ساتھ ساتھ فضائل بھی بتلاتے، اس کی دستیابی کے مقام کابھی تذکرہ کرتے، دین کے طالب علموں کےساتھ ہمیشہ ہی انتہائی مروّت و محبت کا سلوک کرتے خواہ وہ عمر و مرتبہ میں اُن سے کس قدر کم ہوتا۔ مدرسہ کی بچیوں سمیت جب کبھی موقعہ بنا تو یہ دیکھ کر حیرت ہوتی کہ وہ کم عمری،کم علمی ، کم حیثیت سے صرفِ نظر کرکے صرف ایک طالب علم سمجھ کر ان کا کس قدر اکرام کرتے۔
حافظ صاحب کی ضیافتیں
الحمدللہ حافظ صاحب کی اگر خدمتیں کی ہیں تو بہت سی ضیافتیں اُن سے وصول بھی کی ہیں۔ جب بھی ان کے ہاں پڑھنے گئے، شاذ و نادر ہی ایسا ہوا ہوگا کہ صرف پڑھ کر آگئے اور کچھ کھایا