کتاب: محدث شمارہ 355 - صفحہ 97
کہ ہم نے ہی دین کی عمارت تھام رکھی ہے۔
کہا کرتے کہ کتاب لے کر جب بھی کوئی آجائے تو میں انکار نہیں کرسکتا لہٰذا میں ان لوگوں میں سے ہونے کی کوشش کرتی کہ کتاب لے کر جب موقع ملے پہنچ جاؤں او رمجھے ان کی طرف سے کبھی کم ظرفی کا سامنا نہ کرنا پڑا۔
انہی سالوں میں عقیدہ کے بعد اُنہوں نے ’تسہیل الوصول الی فہم علم الاصول‘ ( جو شیخ عطیہ محمد سالم ، عبدالمحسن بن حمد العباد اور حمود بن عقلا، اساتذہ مدینہ یونیورسٹی کی تالیف ہے) بہت محنت اور توجہ سے پڑھائی۔ شاید ہم پڑھنے کا حق ادا کر پائے کہ نہیں۔ فرمایا کرتے اب محنت کرو تو ’الوجیز‘ پڑھا سکتا ہوں۔
یہ اَسباق اب جامعہ لاہور اسلامیہ گارڈن ٹاؤن کی بجائے مدرسہ تدریس القرآن وسن پورہ میں ہونے لگے او ران میں حافظ عبدالرحمٰن مدنی حفظہ اللہ کا تعاون ہر لمحہ شریکِ حال رہا کہ ان کی گاڑی حافظ صاحب کو قینچی سے وسن پورہ لانے لے جانے کی ڈیوٹی دیتی رہی۔ خصوصاً باجی رضیہ مدنی صاحبہ ، اہلیہ حافظ عبدالرحمٰن مدنی بھی ماڈل ٹاؤن سے ان سبقوں کے لیے تشریف لاتیں۔ ہمارے یہ اسباق الحمدللہ روز بروز ترقی کرتے جارہےتھے کہ ان کے شرکا میں اضافہ ہونے لگا۔ میرے بڑے بھائی ڈاکٹر حافظ شفیق الرحمٰن کیلانی، محترم عبدالقدوس سلفی (زوجی المحترم)، محترم شیخ نعیم (زوج مصباح) وغیرہم بھی ان اسباق میں عموماً شریک ہونے لگے۔ گاہے بگاہے والد صاحب مولانا عبد الرحمن کیلانی بھی اپنی کسی تصنیف یا مقالہ کے حوالہ جات یانقطہ نظر پر بحث کے لیے تشریف لے آتے۔ والدہ محترمہ بھی جب فراغت پاتیں تو ضرور اپنے ذوق کی آبیاری کے لیے آبیٹھتیں۔ مدرسہ کی دیگر تلامذہ میں سے جوکوئی بھی ذوق رکھتی، وہ بھی ضرور آکے بیٹھتی او رمیں ان کی حوصلہ افزائی کرتی۔ پڑھنے والی تقریباً سبھی شاگردیں تھیں۔ ان کے درمیان حافظ صاحب میری خوب اچھی طرح کلاس لیاکرتے اور خوب دھنائی اور صفائی کیا کرتے، ذرا سی کوئی غلطی ہوتی تو فرماتے استغفراللہ کس قدر رحم آتا ہے ان بچیوں پر جنہیں آپ جیسااُستاد مل گیا ، کیا ان بچیوں کا مبلغ علم یہی ہے؟ اور پھر میری اصلاح کا سلسلہ شروع ہوجاتا.......
پڑھائی کے دوران ، غالباً1987ء کی بات ہے کہ میں ایک دفعہ کہہ بیٹھی کہ یہ چیز پڑھ لیتے ہیں، میرے ایم اے کی نصاب میں بھی ہے۔ اس کے بعد کچھ بھی پڑھاتے تو طنزاً ایم اے کا ذکر ضرور کرتے اور ضرور حوالہ دیتے کہ شاید تمہارے کچھ نمبر مزید آجائیں، ان دنیاوی ڈگریوں پر ہلکا طنز بھی کرتے اور اس ڈگری فوبیا کو ضرور رگڑتے۔