کتاب: محدث شمارہ 355 - صفحہ 96
منہج کی اور سیاست کی۔ بہرحال وہ اپنے طور پر نہ صرف عالم دین بلکہ لیڈر اور خطیبانہ شخصیت ہونے کی وجہ سے اپنا ایک الگ سٹائل رکھتے تھے جس سے محظوظ ہونے اور فیض پانے کی وجہ سے پھر بھی اُن سے رابطہ کرلیتی۔ مگر بقیہ تمام علما کی شفقتوں کی وجہ سے اپنے علم کے بارے میں خوش فہمی کا بھی شکار تھی۔ حفظ و تجوید میں قاری جعفر صادق صاحب آف ٹھینگ موڑ اور اُستاذ القرا ء ادریس عاصم سے بھی فیض پایا۔
اسی دور میں مجھے گورنر ہاؤس میں اس وقت کے گورنر غلام جیلانی نے صدارتی تمغہ حسن کارکردگی بھی عطا کیا تھا۔ جنرل ضیاء الحق مرحوم کی سیرت کانفرنس میں بھی سرکاری طور پر مدعو کیا گیا تو اس سے میری خوش فہمی اور بے جا اعتماد میں کافی اضافہ ہوا۔
حافظ عبد الرشید اظہر صاحب کی میرے ساتھ سب سے بڑی نیکی یہ ہے کہ وہ مجھے فوق الثریا سے تحت الثریٰ تک لائے۔علم اخذ کرنے کا طریقہ، علماء کااحترام و ادب بزرگوں کے بارے میں حفظِ مراتب کا دھیان رکھنا اپنے فہم و استنباط پر علماے سلف سے حجت پکڑنے کے بعد اس کا تذکرہ کرنا، کسی بھی مسئلے پر انتہائی غوروخوض کے بعد رائے قائم کرنا اور پھر اپنی رائےپر اصرار نہ کرنا بلکہ دوسروں کی رائے اپنے موقف کے خلاف بھی ہو تو اسے برداشت کرنا، دلائل کی قوت سے بات کرنا او راسی طرح بہت کچھ جس نے میری تربیت کی۔ مجھے تحمل و ادب سکھایا، اپنی ذات کا عرفان عطا کیا۔ اللہ سے قربت، دنیا کی بے ثباتی، آخرت کا فکر، عقیدے کی پختگی، فکر کی راستی، زہد، دوسروں کا احترام او راُنہیں وقعت دینا، ان کے لیے اپنے مال و وقت کا حصہ نکالنا سکھایا۔ اُن سے تعلق کے دوران ان سے بہت کچھ پڑھا، بہت کچھ سیکھا اور بہت ساری تربیت حاصل کی جو لفظوں کی نہیں، عمل کی تھی۔
عقیدہ کی مختصر کتاب پڑھانے کے بعد اُنہوں نے کہا: جاؤ اب خود سے شرح عقیدہ طحاویہ پڑھو، اس کی فلسفیانہ بحثیں چھوڑ کر باقی تمہیں سمجھ آجائے گا۔ پھر ہم نے پڑھا او رجو سمجھ نہ آیا، ان سے پوچھ لیا۔ جب بھی موقع ملا اُنہیں سکھانے کے لیے خندہ رُو اورکشادہ دل پایا ۔ فرمایا کرتے : پوچھو پوچھو یہی پڑھانے بتانے کے تو میں پیسے لیتاہوں( یہ اُن کا اپنے سعودی مبعوث ہونے کی طرف اشارہ تھا) پھر کیوں نہ بتاؤں ؟ یہ بھی ان کی عالی ظرفی تھی کہ کھلے دل سے تسلیم کرتے بلکہ دوسروں کے سامنے اظہار بھی کرتے کہ یہ میرا فرضِ منصبی ہے کوئی احسان نہیں، ورنہ اکثر علما اعزازیہ وصول کرکے بھی نہ صرف بندوں پر بلکہ بسا اوقات اللہ پر احسان چڑھا رہے ہوتے ہیں