کتاب: محدث شمارہ 355 - صفحہ 95
اسلام آباد منتقل ہونے کے بعد وہ مدرسہ کی مدیرہ کے فرائض سرانجام دے رہی ہیں او ردور بیٹھ کر جو خیر مجھ سے ہوسکتی ہے، میں بھی پورا کرنے کی کوشش کرتی ہوں۔ والحمد لله على ذلك!
گھر میں امی جان سے جوکچھ پڑھنا ممکن تھا، پڑھا اور ان کی نگرانی میں پڑھانا بھی شروع کردیا۔ محترمہ باجی عطیہ انعام الٰہی رانا (اُمّ عثمان) صاحبہ سے مشکوٰۃ المصابیح اور کچھ عربی گرامر پڑھی۔ مولانا عبدالغفور صاحب (خطیب جامع مسجد توحید عامر روڈ شادباغ لاہور) سے سنن نسائی او رصحیح مسلم پڑھیں۔مولانا ابوبکر الصدیق سلفی صاحب (خطیب جامع مسجد نجم، مدیر ’الاعتصام‘) سے بخاری سبقاً سبقا پڑھیں۔مدرسہ تدریس القرآن والحدیث کی مدیرہ ہونے کے ناطے بہت سے علماے کرام سے رابطہ رہتا اور شرفِ فیض ہوتا رہتا۔ بہت سے علماے کرام سے باضابطہ نہیں تو بے ضابطہ درس و تدریس، فہم و تفہیم اور اخذ مسائل کا تعلق رہتا۔
مثلاً حافظ یحییٰ میر محمدی رحمۃ اللہ علیہ سے تربیت و تعلّم کا بہت حصہ حاصل کیا ۔ الحمدللہ جمعہ گاہے بگاہے بھائی پھیرو پڑھنے کی سعادت حاصل ہوتی۔ او ریہ نیکی اللہ غریق رحمت کرے عموماً شیخ محمد یونس صاحب مرحوم (علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ کے سمدھی) او رمصباح کے والد شیخ عبدالستار صاحب مرحوم کے حصے آتی کہ وہ ہمیں لے جاتے او رلے آتے۔ یہاں پر حافظ صاحب ایک طرف ہمیں عموماً موقعہ دیا کرتے کہ ہم خواتین تک اللہ کا پیغام پہنچائیں اور دوسری طرف خود مخصوص وقت عنایت فرمایا کرتے جس میں تعلیم و تعلّم مسائل کا پوچھنا اور مناقشہ شامل ہوتا۔ جب کبھی لاہور میں کوئی پروگرام ہوتا تو خصوصی وقت عنایت فرماتے اور مدرسہ تدریس القرآن والحدیث (نزد نجم مسجد) کی عمارت میں اُن سے پڑھنا زندگی کی خوشگوار یادوں میں سے ہے۔ حافظ صاحب انتہائی محبت اور شفقت کا اظہار فرمایا کرتے۔اللهم ادخله جنة الفردوس۔ آمین!
انہی بزرگانِ دین کے تذکرے میں مولانا یحییٰ شرقپوری صاحب ، حکیم عبدالرحمٰن خلیق آف بدوملہی صاحب بھی آتے ہیں۔ خواتین کے مدارس اور پروگراموں کے سلسلے میں ان سے بھی رابطہ رہتا۔ مولانا عزیز زبیدی صاحب (آف منڈی واربرٹن) سے کچھ عرصہ بحیثیتِ اُستاذ مدرسہ تدریس القرآن والحدیث میں بھی سیکھنے کا تعلق رہا۔
علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ کو بھی بوقتِ ضرورت فون کرکے مسائل پوچھ لیا کرتی۔ ان میں سے مؤخر الذکر کے علاوہ ہر ایک سے انتہائی شفقت، محبت، احترام اور عزت پائی۔ علامہ صاحب سے بات ہوتی تو وہ اپنے دبنگ لہجے میں غلطیاں نکالا کرتے:تلفظ کی، اعراب کی، لہجے کی، فہم کی،