کتاب: محدث شمارہ 355 - صفحہ 93
کی آٹھ اساتذہ شامل تھیں۔ ہم نے آٹھ دن میں حافظ صاحب سے ’عقیدہ اہل السنۃ والجماعۃ‘ سبقاً سبقاً پڑھا۔ آٹھویں دن امتحان دیا، روزانہ کا ہوم ورک بھی ملتا تھا۔ ڈٹ کر کلاس پڑھی اور ایسی پڑھی کہ پھر اس کے بعد حافظ صاحب سے تعلیم و تعلّم کا جو تعلق بنا، وہ اتنا طویل ہےکہ اس تذکرے کو بیان کرنا انسان کے بس سے باہر ہے۔ یہ سلسلسہ تب سے ایں دم ہے کہ حافظ صاحب سے جو آخری سبق میں نے اُن کی زندگی میں پڑھا ، وہ 10 مارچ 2012ءکا تھا۔ میں،ابوعبدالربّ اور میر ی عزیز دوست مصباح عبدالستار شرکائے کلاس تھے اور پچھلے تین ہفتے سے متواتر اُن کے قیمتی لمحات سے اپنا حصہ وصول کررہے تھے۔ شروع کے کچھ اسباق ہم زوجین نے پڑھے، پھرمصباح عبدالستار بھی شریک سبق ہوگئیں۔ 1985ء میں عقیدہ پڑھنے کے کچھ ہی دنوں بعد کا واقعہ ہے کہ میرے بھائی حافظ عتیق الرحمٰن کیلانی رحمۃاللہ علیہ جو انجینئرنگ یونیورسٹی لاہو رمیں پڑھتے تھے اور’سلفیہ رائزنگ انجینئرز‘ کے نام سے اہل حدیث طلبہ کی تنظیم میں وہ مرکزی کردار ادا کیا کرتے۔اس تنظیم نے اپنا ایک پروگرام منعقد کیا جس میں مکتب الدعوۃ کے ڈائرکٹر کو بطورِ مہمان بلایا گیا تھا۔ اس سعودی مہمان کے خطبہ صدارت کا اُردو ترجمہ کرنے کے لیے اُن کے ساتھ ایک صاحب تھے۔یونیورسٹی کے اس ماحول میں جہاں طلبہ کو عربی کی ذرا بھی شُد بد نہ تھی، اس مہمان کے ترجمان کی روانی بیان ، شگفتگی، سلاست اور فی البدیہہ ترجمانی نے طالب علموں کو بہت متاثر کیا۔گھر آکر بھائی نے اس تقریب کا جو حال سنایا اور خوب مزے لے لے کر سنایا کہ اس تقریب کی روداد میں جو چیز اہم تھی وہ ’مترجم‘ تھا، کیا بات تھی اس کی؟ یہ دوسرا تعارف تھا اُستاذی محترمی مکرمی حافظ عبدالرشید اظہر رحمۃ اللہ علیہ کا۔ آج جب میں عقیدہ کلاس (جو میری زندگی اور خصوصاً طالب علمانہ دور میں بہت اہمیت کی حامل ہے)کو یاد کرنے بیٹھی ہوں تو میرے غم مجھ پر ہجوم[1] کرکے آرہے ہیں ۔یہ عقیدہ کلاس میری زندگی کا اہم ترین موڑ تھی۔ جس کو سمجھنے کے لیے مجھے اپنا تھوڑا سا پس منظر بتانا پڑے گا ۔ اگر اس کو خود نمائی یا خود رائی پر محمول نہ کیا جائے بلکہ اظہارِ احوال کے لیےاس کی ضرورت کو
[1] اس عقیدہ کلاس کی شرکا میں سے دو اہم اورعزیز ترین شاگردات کافی مدت سے اللہ کی بارگاہ میں پہنچ چکی ہیں۔ شبانہ الطاف جسے میں مدیحہ کہا کرتی تھی اور صدیقہ عبدالرحمٰن جسے میں منیبہ کہا کرتی تھی۔ اللهم اغفرلهم وارحمهم وعافهم