کتاب: محدث شمارہ 355 - صفحہ 91
جانے والے صدمات میں ایک اور جانکاہ صدمے کا اضافہ ہوا۔ اور وہ تھا اُستادِ مکرم حافظ عبد الرشید اظہر رحمۃ اللہ علیہ کی ناگہانی اور مظلومانہ وفات کا دکھ!
17/ مارچ 2012ء بروز ہفتہ،مغرب کے بعد اسلام آباد جی 6 کی مرکزی مسجد اہلحدیث میں قرآن کلاس تھی جس میں ہم سب اہل و عیال سمیت شریک تھے۔ موبائل سائلنٹ پرتھا لیکن نظروں کے سامنے7:43 سے موبائل پر مختلف نمبر وں سے کالیں آنا شروع ہوئیں جنہیں میں نظر انداز کرتی رہی، پھر پیغام آنے شروع ہوگئے۔ پیغام پڑھ کر تو میرے پاؤں تلے زمین ہی کھسک گئی۔ فوری طور پر حافظ صاحب، پھر اُن کی اہلیہ ، ان کی بیٹی کا فون ملایا۔ حافظ صاحب اور اُن کی اہلیہ کا نمبر بند تھا۔ مگر بیٹی کا فون جس نے سنا، وہ رو رَہی تھیں جس سے اس جانکاہ خبر کی تصدیق ہوگئی جسے ماننے سے ہمیشہ ہی جذبات نے انکار کیا ہے۔
اتنی دیر میں ابوعبدالربّ انجینئر عبد القدوس سلفی کا پیغام بھی مل چکا تھا کہ باہر نکلو، چلیں۔ گاڑی میں بیٹھے اور گاڑی آئی 10 میں حافظ عبدالرشید صاحب کی رہائش گاہ کی طرف موڑ دی۔ بچوں سمیت حافظ صاحب کے گھر پہنچ گئے۔ گھر میں پولیس پہنچ چکی تھی اور ضابطے کی کارروائیوں میں مصروف تھی۔ مظلومانہ ہلاکت پر شور شرابا، ہائے وائے، رونا دھونا... جماعتی احباب جمع تھے اور اپنے اپنے قیافے،اندازے لگائےجارہے تھے او رمیں سوچ رہی تھی کہ جو سانحہ گزر چکا، اب اس کا ازالہ تو ممکن نہیں۔ اب ان باتوں سے کیا حاصل.....؟ جو کچھ بھی کرلیا جائے، اسلام کا نظامِ قصاص تو پاکستان میں ہے نہیں کہ جو ’حیات آور‘ ہو ۔جب حیاۃ نہیں تو پھر’مماۃ ہی مماۃ‘ ہے۔ سانپ نکل جانے کے بعد لکیر پیٹنے کا کیا فائدہ؟ افسوس کہ ابھی تک ہمارا قومی و دینی شعور اتنا پختہ نہیں ہوپایا کہ ہم اس طرح کے نقصانات کروا کے بس وقتی ہنگامہ آرائی، شور شرابا، احتجاج اور غل غپاڑہ کرکے سمجھتے ہیں کہ ہم شاید اپنے ملّی وجماعتی فریضے سے عہدہ برا ہوچکے...!
حافظ صاحب سے سلسلۂ تلمذ
حافظ عبدالرشید اظہر صاحب رحمۃ واسعۃًکے ساتھ تعلق ربع صدی سے زائد عرصے پر محیط ہے۔ یہ 8019ء کی دہائی کی بات ہے۔ شاید 84ء یا 85ء کی بات ہو جب وفاق المدارس السّلفیہ کا قیام عمل میں آیا اور تمام مدارس کی رجسٹریشن ہورہی تھی۔ وفاق کے تحت علماے کرام امتحان دے کر الشهادة العالميةکی اسناد حاصل کررہے تھے۔ دین کی ادنیٰ طالب علم ہونے کے