کتاب: محدث شمارہ 355 - صفحہ 89
وہ اپنے ہوش وحواس میں نہیں تھے اور اُن کو سانس کی نالی لگی ہوئی تھی۔ عیادت کے بعد میں نے اُنہیں رات کو اپنے ہاں ٹھہرنے کی پیش کش کی، لیکن وہ صبح سویرے شیخ الحدیث حافظ ثناء اللہ مدنی سے ملاقات کرکے، واپس اسلام آباد کے لئے عازمِ سفر ہونا چاہتے تھے۔ سو چار وناچار اُن کو الوداع کہا ... یہ تھی ہماری ان سے وہ آخری ملاقات جس کا تذکرہ بعد میں ، میں نے والد محترم سے کیا تو اُنہوں نے ہماری میزبانی کی تحسین کی اور ہمیشہ کی طرح حافظ عبدالرشید اظہر صاحب کے علم واہلیت کی کھل کر تعریف کی۔
اظہر صاحب والد صاحب سے عمر میں کئی برس چھوٹے تھے، اس بنا پر والد محترم کی ہمیشہ یہ خواہش رہی کہ ان جیسا ذہین وعالم شخص ، اپنی ذہانت وفطانت اور اوقات کو علم دین کی براہ راست اور کلّی خدمت پر صرف کرے تو اس کے شاندار نتائج برآمد ہوں گے۔ مجھے بتانے لگے کہ ایک بار میرا اُن سے مکالمہ ہوا کہ دینی خدمات کو دنیاوی صلہ اور ملازمت سے ہٹ کر ادا کرنے کا لطف او رتاثیر ہی اور ہے!!
بہرحال حافظ عبد الرشید اظہر رحمۃ اللہ علیہ کی جس طرح اچانک وفات ہوئی، وہ سب کے لئے شدید دھچکا ثابت ہوئی۔ حافظ عبد الرشید اظہر ایک ذہین وفطین، زندگی سے بھرپور اور علم واستدلال کی قوت سے مالا مال شخصیت کا نام تھا۔وہ ایسی ہستی تھی جو اپنے دو ر کی پہچان ہوتی ہے۔ علما واساتذہ کا وہ بھرم تھے اور دین کے دفاع کے لئے ہمہ تن گوش ۔ ان کی موجودگی کی وجہ سے احساس ہوتا کہ دین اسلام کو لاحق خطرات کا ازالہ کیا جاسکتا ہے لیکن اللہ کی حکمتِ بالغہ اس سے کہیں بلند ہے۔ وہ اپنی تدبیروں اور اپنے بندوں کی خوبیوں کو بخوبی جانتا ہے۔ یہ جان کر بھی دلی دکھ ہوا کہ ان کو شہید کرنے والے، وہ لوگ تھے جو غربت کے سبب کئی سال سے اُن سے وظیفہ لے رہے تھے۔ ایک حافظِ قرآن جس نے اُن سے وظیفہ لے لے کر، قرآن کی تعلیم پائی تھی اورحافظ صاحب کو اُن کے اصلاحِ عقائد میں دلچسپی تھی، اس لئے بے وقت آنے اور لمبا وقت بیٹھنے کے باوجود آپ کبیدہ خاطر نہ ہوئے۔ لیکن ان ظالموں نے اپنے محسن کی جان لے کر چھوڑی۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرے اور ان کے زیر ریاست ادارے جامعہ سعیدیہ کو علم وعمل کا مرکز بنائے۔ اس ادارے کا احیا اور مؤثر خدمات اُن کی شدید خواہش تھی جیسا کہ ان کے فرزند حافظ مسعود اظہر کی زبانی پتہ چلا۔ اللہ تعالیٰ ان کی اولاد کو اُن کے لئے صدقہ جاریہ بنائے اور انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔ آمین!