کتاب: محدث شمارہ 355 - صفحہ 88
بھائی ، جامعہ کے اُستاد ڈاکٹر حافظ انس مدنی اور حافظ اسحٰق طاہر(جو دونوں مدینہ یونیورسٹی کے ممتاز فضلا میں سے ہیں) میرے ہمراہ تھے۔اس شام 4 گھنٹے ہم اکٹھے رہے۔ اس رات مجھے علم ہوا کہ حافظ صاحب کافی خوش نوش ہیں ، چنانچہ ایک پرسکون مقام پر مجھے ان کی خدمت میں عشائیہ پیش کرنے کا موقع ملا۔ اس عشائیہ پر بہت سی قیمتی یادیں اور محبت اور اپنائیت کی بہت سی باتیں ہوئیں۔ مجھ سے ایک ایک کرکے اُنہوں نے گھر کے تمام افراد، بہن بھائیوں بالخصوص والدہ محترمہ اور والدِ گرامی کے حالات پوچھے۔ پھر بہنوئیوں کی سرگرمیاں جانیں، ان کے پاس اسلام آباد میں میرے دو بہنوئی حافظ طاہراسلام عسکری اور محمدجنید خاں اکثر علمی رہنمائی کے لئے جایا کرتے تھے۔ حافظ صاحب نے سب کا تذکرہ بڑے غور سے سنا ،پھر چچاؤں کے حالات جانے، اداروں کی انتظامی ومالی مشکلات میں بھرپور دلچسپی لی۔ سب کچھ سن کر بولے کہ
’’میں آپ کے والدِ گرامی حافظ عبد الرحمٰن مدنی سے بے انتہا محبت کرتا ہوں۔ ان کے دینی عزم وارادہ کا میں صمیم دل سے قائل ہوں ۔میرےاُن سے تعلق کا یہ عالم ہے کہ بیت اللہ میں ملتزم سے لپٹ کر ، میں نے اللہ سے یہ دعائیں مانگی ہیں کہ میں اور وہ مل کر دین کا کوئی عظیم کام کرسکیں۔ ماضی میں بہت عرصہ ایسا ہوا ہے اور اللہ کو جب منظور ہوگا، ہم مستقبل میں بھی اکٹھے ہوں گے۔‘‘
پھر اُنہوں نے مجھے اور میرے بھائی کو دین کے اس کام کے ساتھ دل وجان سے منسلک رہنے اور اُس کی دن رات خدمت کی تلقین کی۔ اُنہوں نے فرمایا کہ جس طرح آپ بھائیوں نے دین کے اس کام کو حرزِ جان بنایا ہے، اس سے میری بہت سی توقعات وابستہ ہیں۔ میرے لئے حافظ عبد الرشید اظہر صاحب کے یہ اختتامی کلمات ، دلی سرور واطمینان کا سبب ہوئے۔ میں نے موقع غنیمت جان کر ان سے گذارش کی کہ جب لاہور تشریف لائیں تو ہمیں خدمت کا موقع مرحمت فرمائیں، صرف آمد کا ایک اطلاعی فون کردیا کردیں۔ اپنی بے نیازانہ طبیعت کے عین مطابق اُن کا ارشاد تھا کہ ’’فون تو میں نہ کروں گا، آپ کو طلب ہوگی تو اطلاع بھی آپ کسی ذریعے سے ازخود حاصل کرلیا کریں گے۔‘‘
بعدازاں میں اُنہیں لے کر شیخ زید ہسپتال میں حافظ عبد المنان نورپوری رحمۃ اللہ علیہ کی عیادت کو چلا اور ہم نے اُن کی معیت میں حافظ نورپوری رحمۃ اللہ علیہ کی اس حال میں عیادت کی کہ