کتاب: محدث شمارہ 355 - صفحہ 87
محترم اور ہم بھائیوں سے بہت سی نیک توقعات رکھتے تھے۔ جامعہ کے بعض مسائل میں ، میں بھی ان سے راہنمائی لیا کرتا۔ گذشتہ سال کی بات ہے کہ ان کے شاگردِ رشید اور میرے اُستادِ گرامی مولانا زید احمد حفظہ اللہ جو جامعہ لاہور اسلامیہ میں 15 سال مدرس رہنے کے بعد، اُن کی ہدایت پر کئی سال جامعہ سلفیہ اسلام آباد میں شیخ الحدیث کے فرائض انجام دیتے رہے، اور اب پھر تین سال سے جامعہ لاہور میں ہی اُستاذِ حدیث کی ذمہ داریاں انجام دے رہے تھے۔ اُنہیں کئی برس سے جادو کی سنگین شکایت ہے، جو آخر کار اس شدت تک جاپہنچی کہ جولائی 2010ء میں اُنہوں نے تدریس چھوڑ کر ، اپنے گاؤں میں ڈیرہ جما لیا، کیونکہ ان کے بقول جادو کے حملے کے دوران اُنہیں ایسی شرمناک کیفیتوں سے واسطہ پڑتا ہے جس میں صرف اُن کے اہل خانہ کی موجودگی ہی ممکن تھی ۔ مولانا زید احمد صاحب کی علومِ دینیہ کی تدریس سے انقطاع پر میں بڑا رنجیدہ تھا۔ سو میں نے ان کے اُستاد حافظ عبد الرشید اظہر صاحب سے رابطہ کیا کہ وہ اُن کو سمجھائیں اور اس عظیم کام سے منسلک رہنے پر مجبور کریں۔ اظہر صاحب نے جس وقت میرا فون سنا، وہ اس وقت نیویارک میں کسی تبلیغی دورے کے سلسلے میں گئے ہوئے تھے۔ میرا مطالبہ سن کر فرمانے لگے کہ میں پاکستان پہنچ کر، اُن کو اس سعادت سے منسلک رہنے کی پوری تلقین کروں گا۔ پاکستان واپس ہوئے اور مولانا زید احمد حفظہ اللہ کو فون کیا اور بعد میں مجھے بتانے لگے کہ میں نے اُنہیں کہہ دیا کہ ’’جاود وَادو کچھ نہیں ہوتا، علما کو یہ باتیں زیب نہیں دیتیں، یہ صرف ذہن کا فتور ہے۔میں نے اُنہیں حکم دیا ہے کہ آؤ اور قرآن وسنت پڑھاؤ، سب ٹھیک ہوجائے گا۔‘‘ اِمسال فروری کے اَواخر میں مجھے اچانک علم ہوا کہ وہ لاہور تشریف لا رہے ہیں۔ میں نے اُن کا فون ملایا تو خانیوال سے لاہور کے لئے پابہ رکاب تھے۔ سفر کا مقصد ان کے دیرینہ دوست وہم دم، جامعہ کے شیخ الحدیث حافظ ثناء اللہ مدنی حفظہ اللہ کی احوال پرسی تھی۔ میں نے اُنہیں جامعہ میں تشریف آوری کی دعوت دی اور عشائیہ کا بھی کہہ دیا۔ رات 8 بجے جب وہ اکیلے لاہور میں ڈائیوو بس سے اُترے تو اُسی وقت میرے ذہن میں یہ خیال کوند کر آیا کہ ایسا فاضل شخص کیوں کر، یوں اکیلے بسوں پر سفر کررہا ہے، ان کے ساتھ ہر لمحہ اُن کے رفقا کو ہونا چاہئے۔ لیکن حافظ صاحب ایسے بے باک اور جری انسان کے سامنے ایسی کوئی بات کہنے کی بھی ہمت کم ہی ہوتی تھی۔ لاہور کے اس آخری سفر میں، میں اُن کا میزبان تھے۔ میرے