کتاب: محدث شمارہ 355 - صفحہ 86
کہ منہج اہل حدیث پر حافظ اظہر صاحب کی گفتگو سننے سے تعلق رکھتی ہے لیکن افسوس کہ ایسا کوئی پروگرام مرتب کرنے سے قبل ہی حافظ صاحب نے داعی اجل کو لبیک کہہ دیا۔
چند ماہ قبل حافظ عبد الرشید اظہر کے شاگرد قاری عبد الحلیم محمد بلال لاہور تشریف لائے۔ قاری عبد الحلیم مدینہ یونیورسٹی کے فاضل، عربی زبان کے نامور عالم اور دہشت گردی اور اس سے ملحقہ موضوعات پر کئی عربی کتب کے فاضل مصنف ہیں۔ بتانے لگے کہ اُن کی اظہر صاحب سے تکفیر وخروج کے مسئلے پرتفصیلی گفتگو ہوئی۔ بعد ازاں میری بھی قاری صاحب سے کئی گھنٹے طویل اسی موضوع پر ایک مجلس ہوئی جس میں دیگر علما بھی موجود تھے۔ قاری صاحب نے کہا کہ اظہر صاحب کو اس امر پر شدید ناراضگی تھی کہ کئی نوجوان لوگ، ان دنوں تکفیر وخروج جیسے حساس مسئلے میں رائے زنی کو اپنا معمول بنائے ہوئے ہیں۔ اُن کی رائے میں یہ موضوع بڑی علمی بصیرت اور عالمانہ فراست کا متقاضی ہے ۔ تکفیر وخروج کے مسائل میں وہ متوازن ومعتدل موقف کے قائل اور داعی تھے۔ ان کی وفات کے موقع پر مجھے پتہ چلا کہ اسلام آباد میں تکفیری سوچ رکھنے والے لوگ، اس واحد مسجد میں جمعہ پڑھنے کو روا سمجھتے تھے جہاں حافظ اظہر صاحب کئی سال سے خطبہ جمعہ پڑھا رہے تھے۔گویا اُنہیں بھی اظہر صاحب کے علم وفضل پر پورا اعتماد تھا۔
گذشتہ سال،جب جامعہ لاہور اسلامیہ کی دوسری عظیم الشان بلڈنگ (البیت العتیق برانچ) میں توسیع ہوئی اور جامعہ کی ثانوی کلاسز وہاں منتقل ہوگئیں تو حافظ صاحب بطورِ خاص اس عمارت اور جامعہ کے انتظام وانصرام کو دیکھنے تشریف لائے۔ حافظ صاحب کی تشریف آوری کے موقع پر میرے بھائی ڈاکٹر حافظ حمزہ مدنی ( جو البیت العتیق برانچ کے مدیر ہیں) نے مجھے بھی مدعو کیااور حافظ صاحب سے کھانے کی میز پر تفصیلی نشست ہوئی۔ ادارہ کے مستقبل کے پروگراموں کے بارے میں تبادلہ خیال ہوا۔ حافظ عبد الرشید اظہر صاحب جامعہ کی خدمات کے بہت مداح تھے ۔ ان کی وفات کے موقع پر مجھے جب اسلام آباد ، ان کے دفتر اور عملہ سے ملنے کا موقع ملا تو مجھے پتہ چلا کہ ہماری غیرموجودگی میں، وہ سب حضرات کے سامنے ماہ نامہ محدث، جامعہ لاہور اور اس کے مختلف ادارہ جات کی کارکردگی کی بے انتہا تعریف کیا کرتے۔اُن کے دوستوں نے مجھے بتایا کہ وہ اپنے نجی مجلسوں میں اس جامعہ ، والد