کتاب: محدث شمارہ 355 - صفحہ 85
حافظ عبد العظیم جواد کو جامعہ میں دینی تعلیم کے لئے داخل کروایا اور تین سال سے وہ یہاں تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ یہ جامعہ کے وہ سال تھے جن میں ہم جامعہ کو جدید تعلیمی قالب میں ڈھالنے کی کوششوں میں لگے ہوئے تھے۔حافظ صاحب کی اس تشریف آوری کو غنیمت جانتے ہوئے میں نے صبح کے درس کے بعد اُن سے دریافت کیا کہ پاکستانی کے دینی مدارس میں ، کیا ایسی اصلاحِ احوال کی گنجائش موجود ہے؟ تو فرمانے لگے کہ مدارس جس سادگی اور للہیت کے ساتھ دین کی خدمت کررہے ہیں، اس سلسلے کو تبدیل نہیں ہونا چاہئے۔ مدارس کے طلبہ کو جدید تعلیم میں مشغول کرنا اور طلبہ کو جدید تعلیمی اسناد مہیا کرناایک فتنے کے سوا کچھ نہیں۔ ماضی میں جن علما نے دین کی عظیم خدمات انجام دی ہیں، وہ اسی ڈھنگ کی درسگاہوں کے فیض یافتہ تھے۔ یہیں سے قال اللہ وقال الرسول کی صدائیں بلند ہوتی ہیں اور اُمتِ مسلمہ کا درخشاں مستقبل مدارس سے بلند ہونے والی انہی پرخلوص صداؤں سے وابستہ ہے جنہیں تہذیبِ حاضر کی چکاچوند نے خیرہ نہ کیا ہو۔پھر اپنی ڈاکٹریٹ اور جدید اسناد کی تحقیر کرتے ہوئے گویا ہوئے کہ جدید اداروں کی یہ تعلیمی ڈگریاں صرف علم کا دھوکہ ہیں ، اصل علم تو اسلاف کی اُمہاتِ کتب پڑھ کر آتا ہے۔آخری ملاقات میں فرمانے لگے کہ سعودی عر ب کی جامعات میں کلیہ کی سطح تک چار سالہ تعلیم کا حصول تو انتہائی مفید ہے، طلبہ کو علمی رسوخ اور فاضل اساتذہ سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملتا ہے، تاہم سعودی جامعات میں اس سے مزید اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا ، یعنی ماجستیر وڈاکٹریٹ وغیرہ کرنا، ایک طالب علم کی صلاحیتوں کا رخ موڑ دیتا ہے، اس لئے اس سے گریز ہی بہتر ہے۔ حافظ صاحب اپنی سرشت میں ایک انتہائی تیز اور ناقدانہ مزاج رکھتے تھے۔ ہر بات کو بڑی ذہانت کے ساتھ نوٹ کرنا اور لمحہ بھر میں اس کا مسکت جواب دینا ان کی شخصیت کا خاصہ تھا۔ سننے میں آیا کہ چند سالوں سے حافظ صاحب نے کئی ایک ٹی وی پروگراموں میں بھی عظمتِ حدیث اور اُصول حدیث کے موضوع پر شاندار مکالمے کئے اور بعض لوگوں نے راقم کو اُن کی ریکارڈنگ میسر کرنے کا بھی وعدہ کیا، لیکن ایک دو کی آڈیو ریکارڈنگ سننے کے علاوہ راقم کو اُن کے مباحثے دیکھنے کا موقع نہ مل سکا۔ جامعہ کے بعض اساتذہ نے مجھ سے تذکرہ کیا