کتاب: محدث شمارہ 355 - صفحہ 84
سلفیہ میں تلامذہ رہ چکے ہیں اور سب ہی اُن کا تذکرہ اچھے الفاظ میں کرتے ہیں۔ ان میں قاری محمد ابراہیم میرمحمدی، مولانا زید احمد، مولانا شفیق مدنی اور مولانا عبد القوی لقمان حفظہم اللہ مولانا عبد الرشید راشد وہ اساتذہ تھے جو اُن کے علم وفضل کے بے انتہا معترف تھے۔ جیساکہ میں ذکر کرچکا ہوں کہ حافظ صاحب میں علمی رسوخ کے ساتھ ذہانت وفطانت ، حاضر جوابی اوردانائی زیرکی کی ایسی خوبیاں جمع تھیں کہ آپ مخاطب پر چھا جاتے اورپھر اپنے دلائل سے اپنے موقف کو مزین کرتے چلے جاتے۔ مجھے یاد ہے کہ ایک بار حافظ صاحب نے دورانِ گفتگو، دیگر مذاہب کے لئے دین کا لفظ استعمال کرنے پر میری گرفت کی اور فرمایا کہ ان الدین عند اللہ الاسلام... چنانچہ باقی مذاہب کو ادیانِ باطلہ کہنے سے گریز کرنا چاہئے۔ میں نے بھی طالبِ علمانہ سوال جڑ دیا کہ پھر اللہ تعالیٰ نے سورۃ الکافرون میں لکم دینکم ولی دین اور ومن یبتغ غیر الاسلام دینا میں دیگر نظریات کے لئے ’دین‘ کا لفظ کیوں استعمال کیا ہے۔حافظ صاحب نے میری اس بے تکلّفانہ دلیل کی وضاحت کو کسی اور موقع پر اُٹھا رکھا۔
2009ء میں حافظ عبد الرشید اظہر صاحب مرکزی جمعیت اہل حدیث کے ایک مرکزی جلسے میں خطاب کے لئے لاہور تشریف لائے تو رات کے قیام کے لئے اُنہوں نے جامعہ لاہور اسلامیہ کا انتخاب فرمایا۔میں بھی اس وقت جامعہ میں رہائش پذیر تھا، رات حافظ صاحب جامعہ میں قیام پذیر ہوئے اور صبح کی نماز کے بعد اُنہوں نے جامعہ کے طلبہ کو ایک یادگار درس دیا۔ درس کا موضوع ’دینی علم کی فضیلت اورعلما کا مقام‘ تھا۔ مجھے بخوبی یاد ہے کہ نمازِ فجر کے بعد ہونے والے اس درس میں پوری مسجد طلبہ علم سے کھچا کھچ بھری ہوئی تھی، ہر کان اُن کی سمت پوری طرح متوجہ تھا اور دل میں ان قیمتی دلائل اور خوش گوار بیان کو سنتے ہوئے یہ خواہش مچل رہی تھی کہ کاش میں نے اس درس کی ریکارڈنگ کا انتظام کرلیا ہوتا۔
جامعہ لاہور اسلامیہ کے بارے میں حافظ اظہرصاحب کا یہ حسن ظن تھا کہ پاکستان میں علوم اسلامیہ کے سب سے بہترین اساتذہ یہاں موجود ہیں۔ اسی بنا پر اُنہوں نے پہلے اپنے بڑے بیٹے حافظ مسعوداظہر کو یہاں سے دینی تعلیم دلوائی ، ان کے دو دامادوں: عبد الوکیل اور عبد الجلیل نے جامعہ ہذا سے دینی تعلیم مکمل کی۔ بعد ازاں یہ تینوں حضرات اعلیٰ تعلیم کے لئے سعودی جامعات میں داخل ہوئے۔پھر انہی سالوں میں اپنے بھانجوں حافظ عبد الماجد اور