کتاب: محدث شمارہ 355 - صفحہ 81
کا بے حد انحصار ہوتا اور ہر مقام پر وہ اس کی بھرپور نمائندگی کرتے۔
مجھے بخوبی یاد ہے کہ 1987ء کےآس پاس جب مکتب الدعوۃ کو سعودی حکومت نے اسلام آباد لے جانے کا فیصلہ کیا تو والدِ محترم نے اس کی شدید مخالفت کی اور یہ کہا کہ اس طرح یہ عظیم دعوتی آفس، ایک بے روح دفترمیں تبدیل ہوکر رہ جائے گا، اور اس کی دعوتی وعلمی تاثیر پاکستانی معاشرے سے ختم ہوکررہ جائے گی۔سعودی حکومت نے اپنا فیصلہ تو تبدیل نہ کیا لیکن والد محترم کی یہ پیش گوئی حرف بحرف پوری ہوئی اور پاکستان میں کتاب وسنت کی جس دعوت کو پورے زور وشور سے پھیلانے کی ضرورت تھی، وہ مکتب الدعوۃ اسلام آباد کی غلام گردشوں میں گم ہوکر رہ گئی اورعوام سے اِس کا رابطہ منقطع ہوگیا۔
مولانا عبد الرشید اظہر صاحب کی شخصیت، ایک انتہائی ذہین وفطین، چست وچوبند اور دانا و زیرک شخص کی تھی۔ ان سے عام روزمرہ گفتگو بھی بڑے سنبھل کرکرنا پڑتی۔ والد محترم اور اُن کا علم اُصولِ فقہ کا ذوق قدرِ مشترک تھا۔والد گرامی بتایا کرتے کہ جامعہ کا المعہد العالی للشریعہ والقضا کا قاضی کورس اپنے دور کا کامیاب ترین پروگرام تھا ، اس کورس میں داخلے کے لئے بڑے بڑے عہدیدار اپنے عزیزوں کے داخلے کے لئے سفارشوں کے متلاشی رہتے۔ سعودی عرب نے اس معہد کے لئے صرف ایک سال میں 60سکالر شپ دئیے۔ والد محترم کے اُستادِ خاص، سعودی عرب کے مفتی اعظم شیخ عبد العزیز بن باز رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی کامیابی کے لئے ہر خلیجی حکومت میں اپنے اثر ورسوخ کو بھی استعمال کیا ۔ اس کورس کی مقبولیت وافادیت کو دیکھتے ہوئے صدر ضیاء الحق کے دور میں ، اس وقت کی اعلیٰ عدلیہ نے اس تعلیمی منصوبے کو اپنی سرپرستی میں لے لیا اور یہی کورسز چند تبدیلیوں کے ساتھ اعلیٰ افسران کے تربیتی ادارے ’نیپا‘ میں ہونے لگے۔ اب والد محترم کے آئے روز وہاں تربیتی لیکچرز ہوتے۔ کورسز کی کثرت اور علوم کی وسعت کے پیش نظر جب مدنی صاحب کو اپنے ساتھ کے لئے ایسی فاضل شخصیت کی ضرورت محسوس ہوئی جو علمی طورپر مستحکم اور راسخ ہو اور جدید قانون کے ماہرین کے سامنے شریعتِ اسلامیہ کے محاسن کو دلیل ومنطق کے ساتھ ثابت کرسکے، اس عظیم مقصد کے لئے اُن کی نظر انتخاب حافظ عبدالرشید اظہر پر پڑی اور پھر جس طرح حافظ اظہر صاحب نے مستقبل کے اِن جج /قاضی حضرات کو علم اُصولِ فقہ پڑھایا