کتاب: محدث شمارہ 355 - صفحہ 80
انہی دنوں مدینہ یونیورسٹی سے تازہ تازہ تحصیل علم کرکے لوٹے تھے۔ ہم نے اپنے والد گرامی سے ہمیشہ اُن کا تذکرہ ایسے الفاظ میں سنا جس سے اُن کی علمی شخصیت ہماری اوائل عمری کی یادوں میں مستحکم وبلندقامت ہوتی گئی۔ 1980ء کی دہائی کا یہ وہ دور ہے جب محدث، جامعہ، مجلس تحقیق اسلامی اور المعہد العالی للشریعہ والقضا، سب سرگرمیوں کا محور ومرکز ہماری رہائش گاہ 99 جے ماڈل ٹاؤن ہی ہوتا تھا حتیٰ کہ ان اداروں کے فیض یافتگان ہمارے گھر کے کمروں میں اکثر براجمان رہا کرتے اور ہمیں اور والدہ محترمہ کو آئے روز اُن کی میزبانی اور آؤ بھگت کا خوش گوار فریضہ انجام دینا ہوتا۔ادارہ کی اکلوتی سواری سوزوکی وین، ان حضرات کو انجینئرنگ یونیورسٹی سے لانے، لیجانے اور دعوتی مراکز تک پہنچانے میں مصروف رہا کرتی۔ ہمارا بچپن انہی یگانہ روز شخصیات کے ہاتھوں میں کھیلتے گزرا ہے اور اُن کی بہت سی شفقتیں، سرزنشیں یادوں کے پردےمیں لپٹی ہوئی ہیں۔ حافظ عبد الرشید صاحب مرحوم سےہماری یادداشتیں بچپن کے اوائل دور کی ہیں، جب کہ ابھی میں نے دینی تعلیم کا سلسلہ بھی شروع نہ کیا تھا۔والد محترم نے پاکستان میں سب سے پہلے مکتب الدعوۃ کے قیام کے لئے راہ ہموار کی اور اپنی رہائش گاہ ماڈل ٹاؤن کے قریب ہی ٹیپو بلاک نیوگارڈن ٹاؤن لاہور میں کرائے کی ایک کوٹھی مکتب الدعوۃ پاکستان کا پہلا مستقر بنی۔ مجھے آج بھی وہ کوٹھی یاد ہے اور اظہر صاحب ایک ماہ قبل جب آخری بار لاہور تشریف لائے اور مجھے اُن کی میزبانی کی سعادت ملی تو میں نے ان کو رات گئے مکتب الدعوۃ کا وہ اوّلین ٹھکانہ دکھایا۔ کہنے لگے کہ مجھے یہ جگہ یاد نہیں بلکہ میری مکتب الدعوۃ میں آمد اس کے بعد کی بات ہے، تاہم مکتب الدعوۃ کی ابتدائی کتب میں اُس کا پتہ درج ہے۔ عبد الرشید اظہر صاحب اوائل سے ہی مکتب الدعوۃ، پاکستان سے وابستہ ہوگئے تھے، پھر بعد کے 30 سالوں میں پاکستان میں مکتب الدعوۃ اور حافظ عبد الرشید اظہر لازم وملزوم کی حیثیت اختیار کرتے گئے۔ عہدیدار بدلتے گئے،سعودی عرب سے نئے مدیر آتے رہے لیکن عبد الرشید اظہر صاحب کی حیثیت اس مکتب میں ہمیشہ روحِ رواں کی ہی رہی۔ اس مکتب کی رپورٹوں ، دوسرے لفظوں میں عبد الرشید اظہر صاحب کی تصدیقات پر اس مکتب کے رویے