کتاب: محدث شمارہ 355 - صفحہ 8
تشکیل دے تو دوسری طرف بحث کے ایسےآغاز سے ، وہ علما کی زبان سے اِن مظلوموں کے خلاف جارحانہ تاثرات حاصل کرنے کا بھی متمنی ہے جس سے یہ تکفیر وبغاوت کے منہج پر عمل پیرا مظلوم مسلمان معاشرے میں مزید اکیلے اور تنہا ہوجائیں۔ راقم مغرب کی زیر اثر این جی اوز جیسے پاکستان انسٹیٹیوٹ آف پیس سٹڈیز وغیرہ کے تکفیر وخروج کے علما کے مابین مباحثوں کو اسی تناظر میں دیکھتا ہے کہ اس سے مغرب کو علما کے رجحانات جاننے اوران کے سدباب کی تیاری کا موقع ملتا ہے، کیونکہ یہ تمام خطابات اور مباحثے استعماری اداروں میں ترجمہ ہوکر پہنچتے ہیں تو دوسری طرف مغرب تکفیر وخروج کے نام پر علما سےمظلوموں کی مدد کی بجائے اُن کی مذمت کا کام لینا چاہتا ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کسی مغرب زدہ این جی او کو کسی ایسے فقہی مسئلے کی شرعی حیثیت سے کیا دلچسپی ہوسکتی ہے جس کا مفہوم ومقصدعوام الناس تو کجا خواص کو بھی علم نہیں ہے۔ مغرب یا اس کے زیر اثر اداروں نے کب سے کسی اسلامی فقہی تصور کی شرعی حیثیت کے نکھار کی دینی خدمت انجام دینا شروع کردی ہے؟ دراصل بحث کو اصل پس منظر سے شروع کرنے کی بجائے یہاں سے آغاز کرنے کا اس کے سوا کوئی مقصد نہیں کہ خروج کی مذمت کی احادیث پڑھ پڑھ کر، مظلوم مسلمانوں پر مزید معنوی ظلم وستم بروئے کار لایا جائے۔ علما اگر اِن سے ظلم کے خاتمے کی مؤثر جدوجہد کرنے سے محروم ہیں تومغرب زدہ این جی اوز کے کھلے پیسوں اور فائیو سٹار ہوٹلوں میں ایک دعوتِ طعام وقیام کے نام پر کم ازکم اہل اسلام پر تو معصومیت بھرا ظلم نہ ڈھائیں۔ یہ اسلامی حکمت ِعملی کے منافی اور کلمہ حق کے نام پر باطل کی تائید ہے۔یاد رہے کہ مظلوموں کی نری تکفیر کی مذمت پر اکتفا کرلینا کوئی کامل دینی تقاضا نہیں بلکہ یہاں تک استعمار کا بھی مفادِ مشترک ہے۔ اس کے بعد مثبت راستے کی تلاش، جستجو اور اس کے لئے محنت کرنا اصل مثبت ذمہ داری اور فریضہ ہے جس سے لگاتار انحراف کیا جارہا ہے۔ 7. اس اہم ترین قومی بحران کا حل ، علما کو ذمہ دار مباحثوں اور بھرپور اقدامات کے ذریعے دینا چاہئے جیسا کہ اس کی ایک شکل ’دفاعِ پاکستان کونسل‘ کی شکل میں امریکی جارحیت کی شدید مذمت کی صورت میں سامنے آئی ہے اور امریکہ نے ان پر اظہارِ ناپسندیدگی