کتاب: محدث شمارہ 355 - صفحہ 75
1. نصاب میں یہ بے مقصد تبدیلی ناقابل قبول ہے لہٰذا پرانا نصاب اسلامیات بحال وبرقرار رکھا جائے۔
2. فی الفور مجلس فکر ودانش تشکیل دیا جائے جو نصابِ تعلیم، ذریعہ تعلیم زبان وثقافت وغیرہ کی بابت حال ومستقبل کے مقتضیات کی روشنی میں تجاویز مرتب کرے۔
3. اساتذہ کرام اور اہل فکر ودانش، اہل صحافت ومیڈیا کی راہنمائی میں ایک مؤثر، محکم اور دور رَس تعلیمی پالیسی مرتب کی جائے جس کے نفاذ کی ذمہ داری صوبائی انتظامیہ پر ہو اور اس پر کسی عہدیدار کی ذاتی، وقتی اور سطحی جلوہ نمائی یا پبلسٹی کی اثرپذیری نہ ہو۔
4. اہل علم ودانش بالخصوص دینی طبقات وتنظیمات اپنے گردوپیش میں اثر ونفوذ حاصل کر کے ہمہ گیریت کا جوہر کامل اُجاگر کریں۔ اپنی چاردیواری کے ورے اور پرے دونوں پر گہری نظر رکھیں اور اپنے اوپر عائد دینی، ملی اور قومی وعلاقائی ذمہ داریوں سے بروقت عہدہ برآ ہو کر اللہ سبحانہ وتعالیٰ اور ہم نشینوں کے روبروسرخرو ہوں۔
5. منصب حکمرانی وجہاں بانی ایک مقدس اَمانت ہے، ہر امانت کی جواب دہی اور محاسبہ ہے۔ ان سے اور بالخصوص خادمِ اعلیٰ سے گذارش ہے کہ وہ اپنے اوقات، استعدادات اور وسائل کو اس نہج پر استعمال میں لائیں کہ عوام اپنے ملک، آزادی اور ماحول پر فخر کر سکیں اور حکمرانی کرنے والے کل کو ذلّت، رسوائی اور شرمندگی سے بچ جائیں۔
6. قائد اعظم کے اس فرمان کہ پاکستان کی اَساس وبنیاد اسلام اور اس کی زبان ’اُردو‘ ہے کو تعلیمی، تربیتی ، قانونی، عدالتی سرکاری اور روز مرہ کی ہر سرگرمی میں جاری وساری کیا جائے اور اس کے لئے تمام تر توانائیاں وقف کی جائیں ۔یہی تو پاکستانیت ہےاور یہی اس کے ارتقا وتسلسل کا ضامن ہے۔
7. ’اُردو‘ کو گریجویشن تک لازمی مضمون کا درجہ دیا جائے اور ہر سطح کی تدریس وتعلیم اور ہر سطح کے امتحان کا ذریعہ بنایا جائے۔
8. دیگر بدیشی زبانوں کی طرح انگریزی کو اختیاری مضمون کا درجہ دیا جائے البتہ عربی اور فارسی دونوں زبانوں کی تحصیل کی حوصلہ اَفزائی کی جائے۔کیونکہ مآخذ دین کی زبان عربی اور کلامِ اقبال کا دوتہائی حصہ فارسی زبان میں ہے۔